مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5866.
سیدبا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے یا چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کندہ کرائے۔ دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ جب آپ نے دیکھا کو لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لی ہیں تو آپ نے انگوٹھی کو اتار پھینکا اور فرمایا: ”اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔“ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پہنا، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ نے (اسے پہنا) پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ سے وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گر گئی۔
تشریح:
(1) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہنی تو اس وقت حرمت کا حکم نازل ہوا، آپ نے اسے اتار پھینکا اور فرمایا: ’’اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔‘‘ اس کے بعد آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، اس میں "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کندہ کرائے۔ جب آپ بادشاہوں اور حکمرانوں کو خطوط لکھتے تو مہر کے طور پر اسے استعمال کرتے، پھر اس انگوٹھی کو خلفائے ثلاثہ نے بطور تبرک اپنے پاس رکھا۔ چھ سال تک وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔ انہوں نے ایک انصاری شخص کو انگوٹھی کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔ وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ سے بئر اریس میں گر گئی۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ سے وہ انگوٹھی کنویں میں گر گئی تھی پھر تلاش کے باوجود نہ مل سکی۔ (فتح الباري: 393/10) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اور انگوٹھی میں کوئی حرف یا عبارت کندہ کرانا بھی جائز ہے، نیز خلیفہ، قاضی یا دوسرے افسران کی مہر کی نقل تیار کرنا جرم ہے کیونکہ اس سے جعل سازی کا دروازہ کھلتا ہے، پھر حدیث میں اس کی ممانعت بھی مروی ہے۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5477 (2091))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5646
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5866
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5866
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5866
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
سیدبا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے یا چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کندہ کرائے۔ دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ جب آپ نے دیکھا کو لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لی ہیں تو آپ نے انگوٹھی کو اتار پھینکا اور فرمایا: ”اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔“ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پہنا، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ نے (اسے پہنا) پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ سے وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گر گئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہنی تو اس وقت حرمت کا حکم نازل ہوا، آپ نے اسے اتار پھینکا اور فرمایا: ’’اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔‘‘ اس کے بعد آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، اس میں "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کندہ کرائے۔ جب آپ بادشاہوں اور حکمرانوں کو خطوط لکھتے تو مہر کے طور پر اسے استعمال کرتے، پھر اس انگوٹھی کو خلفائے ثلاثہ نے بطور تبرک اپنے پاس رکھا۔ چھ سال تک وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔ انہوں نے ایک انصاری شخص کو انگوٹھی کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔ وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ سے بئر اریس میں گر گئی۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ سے وہ انگوٹھی کنویں میں گر گئی تھی پھر تلاش کے باوجود نہ مل سکی۔ (فتح الباري: 393/10) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اور انگوٹھی میں کوئی حرف یا عبارت کندہ کرانا بھی جائز ہے، نیز خلیفہ، قاضی یا دوسرے افسران کی مہر کی نقل تیار کرنا جرم ہے کیونکہ اس سے جعل سازی کا دروازہ کھلتا ہے، پھر حدیث میں اس کی ممانعت بھی مروی ہے۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5477 (2091))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسا مہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے یا چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کھدوائے پھر دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ جب آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اس طرح کی انگوٹھیاں بنوا لی تو آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگو ٹھیاں بنوا لیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو حضرت ابو بکر ؓ نے پہنا پھر حضرت عمر ؓ اور پھر حضرت عثمان نے پہنا۔ آخر حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گر گئی۔
حدیث حاشیہ:
اور باوجود تمام کوششوں کے مل نہ سکی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn. 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) wore a gold ring or a silver ring and placed its stone towards the palm of his hand and had the name 'Muhammad, the Apostle of Allah (ﷺ) ' engraved on it. The people also started wearing gold rings like it, but when the Prophet (ﷺ) saw them wearing such rings, he threw away his own ring and said. "I will never wear it," and then wore a silver ring, whereupon the people too started wearing silver rings. Ibn Umar (RA) added: After the Prophet (ﷺ) Abu Bakr (RA) wore the ring, and then Umar and then 'Uthman wore it till it fell in the Aris well from 'Uthman. bin 'Umar : Allah's Apostle (ﷺ) wore a gold ring, then he threw it and said, "I will never wear it." The people also threw their (gold) rings.