مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5868.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ایک دن چاندی کی انگوٹھی دیکھی پھر دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں اور انہیں پہن لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ ابراہیم بن سعد زیاد اور شعیب نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے اور ابن مسافر نے زہری سے بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں: میں نے چاندی کی انگوٹھی دیکھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی پھینکی تھی تو لوگوں نے بھی اپنی چاندی کی انگوٹھیاں پھینک دی تھیں، لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پھینکی تھی اور لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پھینکی تھیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک توجیہ ان الفاظ میں ذکر کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینت کے طور پر سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ جب لوگوں نے آپ کے اتباع میں سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں تو حرمت کا حکم نازل ہوا تو آپ نے اور لوگوں نے انہیں اتار پھینکا، پھر بطور مہر چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ اس میں "محمد رسول اللہ" کے الفاظ کندہ کرائے تو لوگوں نے اس طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار دی تاکہ لوگ بھی اپنی اپنی کندہ انگوٹھیاں اتار دیں کیونکہ ان کی موجودگی میں سرکاری مہر کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ جب لوگوں نے اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں اور ان کا وجود ختم ہو گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 394/10) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ کوئی شخص بھی میری اس انگوٹھی کے نقش کی طرح اپنی انگوٹھی پر نقش نہ بنوائے۔ (صحیح مسلم، اللباس، حدیث: 5473 (2091)) اس کے باوجود لوگوں نے اپنی انگوٹھیوں پر یہ نقش کندہ کرایا۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شاید ان لوگوں کو ممانعت نہ پہنچی ہو یا وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے دلوں میں ابھی ایمان پختہ نہیں ہوا تھا جیسا کہ منافقین وغیرہ تھے، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی جیسی انگوٹھیاں بنوا لیں اور ان میں آپ کا نقش بھی کندہ کرایا تو آپ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے اپنی انگوٹھی اتار پھینکی۔ (فتح الباري: 394/10)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5648
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5868
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5868
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5868
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ایک دن چاندی کی انگوٹھی دیکھی پھر دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں اور انہیں پہن لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ ابراہیم بن سعد زیاد اور شعیب نے زہری سے روایت کرنے میں یونس کی متابعت کی ہے اور ابن مسافر نے زہری سے بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں: میں نے چاندی کی انگوٹھی دیکھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی پھینکی تھی تو لوگوں نے بھی اپنی چاندی کی انگوٹھیاں پھینک دی تھیں، لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پھینکی تھی اور لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پھینکی تھیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک توجیہ ان الفاظ میں ذکر کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینت کے طور پر سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ جب لوگوں نے آپ کے اتباع میں سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں تو حرمت کا حکم نازل ہوا تو آپ نے اور لوگوں نے انہیں اتار پھینکا، پھر بطور مہر چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ اس میں "محمد رسول اللہ" کے الفاظ کندہ کرائے تو لوگوں نے اس طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار دی تاکہ لوگ بھی اپنی اپنی کندہ انگوٹھیاں اتار دیں کیونکہ ان کی موجودگی میں سرکاری مہر کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ جب لوگوں نے اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں اور ان کا وجود ختم ہو گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 394/10) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ کوئی شخص بھی میری اس انگوٹھی کے نقش کی طرح اپنی انگوٹھی پر نقش نہ بنوائے۔ (صحیح مسلم، اللباس، حدیث: 5473 (2091)) اس کے باوجود لوگوں نے اپنی انگوٹھیوں پر یہ نقش کندہ کرایا۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ شاید ان لوگوں کو ممانعت نہ پہنچی ہو یا وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے دلوں میں ابھی ایمان پختہ نہیں ہوا تھا جیسا کہ منافقین وغیرہ تھے، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی جیسی انگوٹھیاں بنوا لیں اور ان میں آپ کا نقش بھی کندہ کرایا تو آپ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے اپنی انگوٹھی اتار پھینکی۔ (فتح الباري: 394/10)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں ایک دن چاندی کی انگوٹھی دیکھی پھر دوسرے لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوانی شروع کر دیں اور پہننے لگے تو آنحضرت ﷺ نے اپنی انگوٹھی پھینک دیں اور دوسرے لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دی۔ اس روایت کی متابعت ابراہیم بن سعد، زیاد اور شعیب نے زہری سے کی ہے اور ابن مسافر نے زہری سے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ''خاتما من ورق'' بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
یہاں ناسخین سے نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت سے پہلے سونے کی انگوٹھی بنائی تھی اور بعد میں حرمت معلوم ہونے سے اسی انگوٹھی کو اتار دیا تھا اور اس کے بجائے چاندی کی انگوٹھی کا استعمال شروع کیا تھا۔ یہاں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے چاندی کی انگوٹھی بنوائی تھی اور اس کو آپ نے اتار دیا تھا حالانکہ یہ واقعہ کے خلاف ہے۔ روایت میں مذکور زہری اپنے دادا حضرت زہرہ بن کلاب کی طرف منسوب ہیں۔ کنیت ابوبکر نام محمد، عبداللہ بن شہاب کے بیٹے بہت بڑے فقیہ اور محدث ہیں۔ رمضان سنہ164ھ میں وفات پائی۔ رحمه اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): that he saw a silver ring on the hand of Allah's Apostle (ﷺ) for one day only. Then the people had silver rings made for themselves and wore it. On that, Allah's Apostle (ﷺ) threw away their rings as well. (For the details of this Hadith, see Fateh-Al-Bari, Vol. 12, page 438).