باب: اس بارے میں کہ سورج چھپنے سے پہلے قصد کر کے نماز نہ پڑھے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: One should not try to offer As-Salat (the prayers) just before sunset)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
587.
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: تم لوگ ایک ہی نماز پڑھتے ہو جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی آپ کو وہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یعنی عصر کے بعد کی دو رکعتیں۔
تشریح:
(1) حضرت امیر معاویہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے عصر کے بعد دورکعت پڑھنے کی نفی کررہے ہیں، جبکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد دورکعت کو کبھی ترک نہیں فرمایا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:591) چونکہ حضرت عائشہ ؓ ایک چیز کو ثابت کررہی ہیں، اس لیے اسے ترجیح ہو گی، کیونکہ اصول فقہ کے اعتبار سے ایک چیز کا اثبات اس کی نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ ممکن ہے حضرت معاویہ ؓ عصر کے بعد دورکعت کی ادائیگی پر مطلع نہ ہوسکے ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ انھیں اپنے گھر میں ادا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں مسجد میں ادا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:590) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد ہر قسم کی نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (2) یہ حکم امتناعی آپ کے مذکورہ عمل کے متعارض نہیں، کیونکہ آپ کا حکم امتناعی، غیر سببی نماز سے متعلق ہے اور آپ کا دورکعت پڑھنے کا عمل ایک سبب کے پیش نظرتھا کہ آپ وفد عبدالقیس کی آمد کی بنا پر ظہر کےبعد دورکعت نہ پڑھ سکے تھے، وہ رکعات آپ نے عصر کے بعد ادا فرمائیں اور آپ کا یہ خاصہ تھا کہ جس کام کو ایک مرتبہ شروع کرلیتے، پھر اس پر مداومت فرماتے۔ (فتح الباري: 82/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
583
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
587
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
587
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
587
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: تم لوگ ایک ہی نماز پڑھتے ہو جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی آپ کو وہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یعنی عصر کے بعد کی دو رکعتیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت امیر معاویہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے عصر کے بعد دورکعت پڑھنے کی نفی کررہے ہیں، جبکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد دورکعت کو کبھی ترک نہیں فرمایا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:591) چونکہ حضرت عائشہ ؓ ایک چیز کو ثابت کررہی ہیں، اس لیے اسے ترجیح ہو گی، کیونکہ اصول فقہ کے اعتبار سے ایک چیز کا اثبات اس کی نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ ممکن ہے حضرت معاویہ ؓ عصر کے بعد دورکعت کی ادائیگی پر مطلع نہ ہوسکے ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ انھیں اپنے گھر میں ادا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں مسجد میں ادا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:590) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد ہر قسم کی نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (2) یہ حکم امتناعی آپ کے مذکورہ عمل کے متعارض نہیں، کیونکہ آپ کا حکم امتناعی، غیر سببی نماز سے متعلق ہے اور آپ کا دورکعت پڑھنے کا عمل ایک سبب کے پیش نظرتھا کہ آپ وفد عبدالقیس کی آمد کی بنا پر ظہر کےبعد دورکعت نہ پڑھ سکے تھے، وہ رکعات آپ نے عصر کے بعد ادا فرمائیں اور آپ کا یہ خاصہ تھا کہ جس کام کو ایک مرتبہ شروع کرلیتے، پھر اس پر مداومت فرماتے۔ (فتح الباري: 82/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی ابوالتیاح یزید بن حمید سے، کہا کہ میں نے حمران بن ابان سے سنا، وہ معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ تم لوگ تو ایک ایسی نماز پڑھتے ہو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے لیکن ہم نے کبھی آپ ﷺ کو وہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ بلکہ آپ نے تو اس سے منع فرمایا تھا۔ حضرت معاویہ ؓ کی مراد عصر کے بعد دو رکعتوں سے تھی۔ ( جسے آپ کے زمانہ میں بعض لوگ پڑھتے تھے)
حدیث حاشیہ:
اسماعیلی ؒ کی روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے ہم کو خطبہ سنایا، حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ شاید حضرت معاویہ ؓ نے عصر کے بعد دوسنتوں کو منع کیا۔ لیکن حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے ان کا پڑھنا ثابت ہوتاہے، مگر آپ ان کو مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے۔ اکثر علماء نے اسے خصوصیات نبوی میں شمار کیا ہے، جیسا وصال کا روزہ آپ رکھتے تھے اور امت کے لیے منع فرمایا۔ اسی طرح امت کے لیے عصر کے بعد نفل نمازوں کی اجازت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muawiyahh (RA): You offer a prayer which I did not see being offered by Allah's Apostle (ﷺ) when we were in his company and he certainly had forbidden it (i.e. two Rakat after the Asr prayer).