مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5871.
حضرت سہل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں خود کو ہبہ کرنے آئی ہوں۔ وہ دیر تک وہاں کھڑی رہی آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر نگاہ نیچی کر لی۔ جب وہ دیر تک کھڑی رہی توایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو۔“ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کرنے لگا: اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں ملا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ وہ گیا واپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! مجھے لوہے کی انگوٹھی نہیں ملی۔ اس نے ایک تہبند پہنا ہوا تھا اوڑھنے کے لیے اس کے پاس کوئی چادر نہ تھی اس نے عرض کی: میں اپنا تہبند اگر اس نے پہن لیا تو تمہارے لیے کچھ نہ ہوگا اگر تو نے پہنا تو اس کے لیے کچھ نہ ہوگا۔ چنانچہ وہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ نبی ﷺ نے جب اسے دیکھا کہ وہ پیٹھ پھیرے ہوئے ہے تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : ”کیا تجھے قرآن یاد ہے؟“ اس نے کہا: ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ اس نے چند سورتوں کو شمار کیا آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اس قرآن کے عوض اسے تیرے نکاح میں دے دیا جو تجھے یاد ہے۔“ (یعنی تو اسے سکھائے گا)
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے لوہے کی انگوٹھی استعمال کرنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفلس آدمی کو لوہے کی انگوٹھی تلاش کرنے کا حکم دیا۔ لوہے کی انگوٹھی کے متعلق جو ممانعت پر مشتمل احادیث ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا جس نے پیتل کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھ سے بت کی بو پاتا ہوں۔‘‘ اس نے وہ انگوٹھی پھینک دی۔ وہ پھر حاضر خدمت ہوا تو اس نے لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھ پر اہل جہنم کا زیور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس نے اسے پھینک دیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’چاندی کی انگوٹھی جو ایک مثقال سے کم ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4223) ایک مثقال 4.25 گرام کا ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جرح کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر صحیح ہے تو اس سے مراد خالص لوہے کی انگوٹھی ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 397/10) (3) ہمارے رجحان کے مطابق لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفلس اور غریب آدمی کو لوہے کی انگوٹھی تلاش کرنے کا حکم دیا، اگر اسے پہننا جائز نہ ہوتا تو آپ قطعاً اسے تلاش کرنے کا حکم نہ دیتے۔ اس کی تاویل کرنا کہ انگوٹھی کی تلاش اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تھی اسے پہننا مراد نہیں، یہ تاویل محل نظر ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5651
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5871
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5871
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5871
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت سہل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں خود کو ہبہ کرنے آئی ہوں۔ وہ دیر تک وہاں کھڑی رہی آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر نگاہ نیچی کر لی۔ جب وہ دیر تک کھڑی رہی توایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو۔“ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کرنے لگا: اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں ملا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ وہ گیا واپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! مجھے لوہے کی انگوٹھی نہیں ملی۔ اس نے ایک تہبند پہنا ہوا تھا اوڑھنے کے لیے اس کے پاس کوئی چادر نہ تھی اس نے عرض کی: میں اپنا تہبند اگر اس نے پہن لیا تو تمہارے لیے کچھ نہ ہوگا اگر تو نے پہنا تو اس کے لیے کچھ نہ ہوگا۔ چنانچہ وہ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ نبی ﷺ نے جب اسے دیکھا کہ وہ پیٹھ پھیرے ہوئے ہے تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : ”کیا تجھے قرآن یاد ہے؟“ اس نے کہا: ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ اس نے چند سورتوں کو شمار کیا آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اس قرآن کے عوض اسے تیرے نکاح میں دے دیا جو تجھے یاد ہے۔“ (یعنی تو اسے سکھائے گا)
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے لوہے کی انگوٹھی استعمال کرنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفلس آدمی کو لوہے کی انگوٹھی تلاش کرنے کا حکم دیا۔ لوہے کی انگوٹھی کے متعلق جو ممانعت پر مشتمل احادیث ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا جس نے پیتل کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھ سے بت کی بو پاتا ہوں۔‘‘ اس نے وہ انگوٹھی پھینک دی۔ وہ پھر حاضر خدمت ہوا تو اس نے لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھ پر اہل جہنم کا زیور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ اس نے اسے پھینک دیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’چاندی کی انگوٹھی جو ایک مثقال سے کم ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4223) ایک مثقال 4.25 گرام کا ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جرح کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر صحیح ہے تو اس سے مراد خالص لوہے کی انگوٹھی ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 397/10) (3) ہمارے رجحان کے مطابق لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفلس اور غریب آدمی کو لوہے کی انگوٹھی تلاش کرنے کا حکم دیا، اگر اسے پہننا جائز نہ ہوتا تو آپ قطعاً اسے تلاش کرنے کا حکم نہ دیتے۔ اس کی تاویل کرنا کہ انگوٹھی کی تلاش اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تھی اسے پہننا مراد نہیں، یہ تاویل محل نظر ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے حضرت سہل ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے آئی ہوں، دیر تک وہ عورت کھڑٰی رہی۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھا اور پھر سر جھکا لیا جب دیر تک وہ وہیں کھڑی رہیں تو ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کیا اگر آنحضرت ﷺ کو ان کی ضرورت نہیں ہے تو ان کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جو مہر میں انہیں دے سکو، انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دیکھ لو۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا کہ واللہ! مجھے کچھ نہیں ملا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ تلاش کرو، لوہے کی ایک انگوٹھی ہی سہی۔ وہ گئے اور واپس آ کر عرض کیا کہ وہ مجھے لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں ملی۔ وہ ایک تہمد پہنے ہوئے تھے اور ان کے جسم پر (کرتے کی جگہ) چادر بھی نہیں تھی۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں انہیں اپنا تہمد مہر میں دے دوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہارا تہمد یہ پہن لیں گی تو تمہارے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اور اگر تم اسے پہن لوگے تو ان کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ وہ صاحب اس کے بعد ایک طرف بیٹھ گئے پھر جب آنحضرت ﷺ نے انہیں جاتے دیکھا تو آپ نے انہیں بلوایا اور فرمایا تمہیں قرآن کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں۔ انہوں نے سورتوں کو شمار کیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جا میں نے اس عورت کو تمہارے نکاح میں اس قرآن کے عوض میں دے دیا جو انہیں یاد ہے۔
حدیث حاشیہ:
ان حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد کی حاجت ساتھ ہی انتہائی ناداری دیکھ کر آخر میں قرآن مجید کی جو سورتیں اسے یاد تھیں وہ سورتیں اس عورت کو یاد کرا دینے ہی کو مہر قرار دے دیا۔ ایسے حالات میں اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ ان حالات میں اب بھی یہی حکم ہے، اس شخص سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوہے کی انگوٹھی کا ذکر فرمایا تھا اس وجہ سے اس حدیث کو اس باب میں لایا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA) : A woman came to the Prophet (ﷺ) and said, "I have come to present myself to you (for marriage)." She kept standing for a long period during which period the Prophet (ﷺ) looked at her carefully. When she stayed for a Long period, a man said to the Prophet (ﷺ) "If you are not in need of her, then marry her to me." The Prophet (ﷺ) said, "Have you got anything to give her (as Mahr)?" The man said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Go (to your house) and search for something." The man went and came back to say, "By Allah, I could not find anything." The Prophet (ﷺ) said, "Go again and search for something, even if it be an iron ring." He went again and came back saying, "No, by Allah, I could not get even an iron ring." The man had only an Izar and had no Rida' (upper garment). He said, "I will give her my Izar as Mahr." On that the Prophet (ﷺ) said, "Your Izar? If she wears it, nothing of it will remain on you, and if you wear it nothing of it will be on her" The man went aside and sat down When the Prophet (ﷺ) saw him leaving (after a while), he called back and asked. "How much Qur'an do you know (by heart)? He said, 'I know such and such Suras," naming some Suras. The Prophet (ﷺ) said, "I marry her to you for the amount of Qur'an you know (by heart)."