Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The engraving of the ring done in three lines?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5879.
حضرت انس ؓ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ ہے نبی ﷺ کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں رہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بعد وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہی۔ پھر جب حضرت عثمان بن عفان ؓ کا دور خلافت آیا تو آپ ایک روز اریس کے کنویں پر بیٹھے آپ نے انگوٹھی اتاری اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے تو وہ کنویں میں گر گئی۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ ہم تین دن تک اسے دھونڈتے رہے، کنویں کا سارا پانی کھینچ ڈالا وہ انگوٹھی دستیاب نہ ہوئی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نقش "محمد رسول اللہ" تین سطروں پر مشتمل تھا اور ان کی کتابت نیچے سے اوپر کو تھی۔ لفظ اللہ تینوں سطروں سے اوپر لفظ محمد سب سے نیچے اور رسول کا لفظ درمیان میں تھا۔ اس کی صورت یہ تھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خطوط مبارک ملے ہیں ان پر اسی انداز کی مہر لگی ہوئی ہے۔ (2) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چھ سال تک یہ انگوٹھی رہی، ساتوین سال یہ بئر اریس میں گر گئی۔ یہ کنواں مسجد قباء کے پاس تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امور سلطنت میں غوروفکر کرتے ہوئے ایسے کھو گئے کہ انگوٹھی کو بار بار اتارتے اور پہنتے، اسی دوران میں وہ کنویں میں گر گئی، پھر بہت تلاش کرنے کے باوجود دستیاب نہ ہو سکی۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نقش مبارک کی ترتیب نیچے سے اوپر کی صراحت مجھے نہیں مل سکی بلکہ اسماعیلی کی روایت اس کے خلاف ہے۔ اس میں ہے کہ محمد پہلی سطر، رسول دوسری سطر اور لفظ اللہ تیسری سطر تھی اور انہیں الٹا لکھا گیا تھا تاکہ مہر لگاتے وقت سیدھے الفاظ ظاہر ہوں۔ (فتح الباري: 405/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5659
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5879
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5879
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5879
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت انس ؓ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ ہے نبی ﷺ کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں رہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بعد وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہی۔ پھر جب حضرت عثمان بن عفان ؓ کا دور خلافت آیا تو آپ ایک روز اریس کے کنویں پر بیٹھے آپ نے انگوٹھی اتاری اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے تو وہ کنویں میں گر گئی۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ ہم تین دن تک اسے دھونڈتے رہے، کنویں کا سارا پانی کھینچ ڈالا وہ انگوٹھی دستیاب نہ ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نقش "محمد رسول اللہ" تین سطروں پر مشتمل تھا اور ان کی کتابت نیچے سے اوپر کو تھی۔ لفظ اللہ تینوں سطروں سے اوپر لفظ محمد سب سے نیچے اور رسول کا لفظ درمیان میں تھا۔ اس کی صورت یہ تھی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خطوط مبارک ملے ہیں ان پر اسی انداز کی مہر لگی ہوئی ہے۔ (2) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چھ سال تک یہ انگوٹھی رہی، ساتوین سال یہ بئر اریس میں گر گئی۔ یہ کنواں مسجد قباء کے پاس تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امور سلطنت میں غوروفکر کرتے ہوئے ایسے کھو گئے کہ انگوٹھی کو بار بار اتارتے اور پہنتے، اسی دوران میں وہ کنویں میں گر گئی، پھر بہت تلاش کرنے کے باوجود دستیاب نہ ہو سکی۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نقش مبارک کی ترتیب نیچے سے اوپر کی صراحت مجھے نہیں مل سکی بلکہ اسماعیلی کی روایت اس کے خلاف ہے۔ اس میں ہے کہ محمد پہلی سطر، رسول دوسری سطر اور لفظ اللہ تیسری سطر تھی اور انہیں الٹا لکھا گیا تھا تاکہ مہر لگاتے وقت سیدھے الفاظ ظاہر ہوں۔ (فتح الباري: 405/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے اتنا اور روایت کیا، کہا مجھ سے محمد بن عبداللہ انصاری نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کے بعد ابوبکر ؓ کے ہاتھ میں اور ابو بکر ؓ کے بعد عمر ؓ کے ہاتھ میں رہی پھر جب عثمان ؓ کی خلافت کا زمانہ آیا تو وہ اریس کے کنویں پر ایک مرتبہ بیٹھے، بیان کیا کہ پھر انگوٹھی نکالی اور اسے الٹنے پلٹنے لگے کہ اتنے میں وہ (کنویں میں) گر گئی۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ پھر عثمان ؓ کے ساتھ ہم تین دن تک اسے ڈھونڈتے رہے اور کنویں کا سارا پانی بھی کھینچ ڈالا لیکن وہ انگوٹھی نہیں ملی۔
حدیث حاشیہ:
تین سطروں میں نقش مبارک اس طرح سے تھا محمد رسول اللہ حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas added: 'the ring of the Prophet (ﷺ) was in his hand, and after him, in Abu Bakr's hand, and then in 'Umar's hand after Abu Bakr. When Uthman was the Caliph, once he was sitting at the well of Aris. He removed the ring from his hand and while he was trifling with it, dropped into the well. We kept on going to the well with Uthman for three days looking for the ring, and finally the well was drained, but the ring was not found.