باب: عصر کے بعد قضاء نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: To offer the missed Salat (prayers) and the like after the 'Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور کریب نے حضرت ام سلمہ ؓکے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں، پھر فرمایا کہ بنو عبدالقیس کے وفد سے گفتگو کی وجہ سے ظہر کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھاچنانچہ ان کو آپ نے بعد عصر ادا فرمایا۔ پھر آپ ﷺ گھر میں ان کو ادا کرتے ہی رہے۔ اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے، امت کے لیے یہ منع ہے۔ مگر قسطلانی نے کہا کہ محدثین نے اس سے دلیل لی ہے کہ فوت شدہ نوافل کا عصر کے بعد پڑھنا بھی درست ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتاہے۔
593.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جس دن بھی نبی ﷺ عصر کے بعد میرے ہاں تشریف لاتے تو دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔
تشریح:
(1) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ان دورکعات کو صرف ایک مرتبہ ان کے گھر ادا کیا جبکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے پتا چلتا ہے کہ آپ انھیں ہمیشہ پڑھتے رہے۔ ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ آپ نے ان دو رکعات کو بطور قضا پڑھا جیسا کہ حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں وضاحت ہےکہ یہ دورکعات نماز ظہر کے بعد والی ہیں جنھیں مصروفیت کی وجہ سے نہیں پڑھا جاسکا تھا۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:580) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بطور خصوصیت ہمیشہ پڑھتے رہے جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے۔ (2) بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد دورکعات کو سنت سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں منع کرتے اور ان پر سختی بھی فرماتے تھے۔ مبادا دوسرے لوگ گروب آفتاب تک نماز کے جواز کا حیلہ بنا لیں۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان اوقات میں ممانعت کی احادیث منسوخ ہیں لیکن ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ ممانعت کی احادیث محکم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعت اس لیے ادا کی تھیں کہ وفد عبدالقیس کی آمد کی وجہ سے آپ ظہر کی دو سنت نہیں پڑھ سکے تھے، لہٰذا آپ نے وہ دوسنت عصر کے بعد ادا کرلیں اور آپ کا یہ معمول تھا کہ جب کوئی عمل شروع کرتے تو بعد میں اس پر مداومت فرماتے، اس بنا پر عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا آپ نے معمول بنا لیا اور یہ عمل صرف آپ کے ساتھ ہی خاص تھا۔ عصر کے بعد دو رکعت ادا کرنا امت کے لیے کوئی مسنون عمل نہیں جیسا کہ بعض اہل علم کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے۔ والله اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
589
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
593
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
593
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
593
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کسی قسم کی نماز پڑھنے کے قائل نہیں جبکہ نماز عصر کے بعد فوت شدہ یا اس طرح کی کوئی نماز پڑھنے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس عنوان کے ذریعے سے آپ نے ان نوافل کو خارج کیا ہے جو مطلق اور بلاسبب ہوں،(فتح الباری: 2/85) نیز نحوها کے ذریعے سے نماز جنازہ،نماز گرہن اور سجدۂ تلاوت کو اس اجازت میں شامل کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ معلق روایت کو دوسرے مقام پر متصل سند کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا ہے۔حضرت کریب کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابن عباس،مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن ازہر رضی اللہ عنہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ انھیں ہم سب کی طرف سے سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے متعلق دریافت کرنا کیونکہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھتی ہیں،حالانکہ ہماری معلومات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مزید فرمایا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ لوگوں کو ان کی ادائیگی پر مارا کرتا تھا۔حضرت کریب کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے پاس گیا،جب آپ کو ان حضرات کا پیغام پہنچایا تو انھوں نے فرمایا کہ اس کے متعلق حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے دریافت کیجیے۔میں ان حضرات کے پاس واپس چلاگیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا پیغام انھیں پہنچادیا۔انھوں نے مجھے حقیقت حال کی دریافت کے لیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دورکعات سے منع کرتے تھے،پھر میں نے ایک دن آپ کو عصر کے بعد یہ دو رکعت پڑھتے دیکھا،میرے پاس چونکہ قبیلۂ بنو حرام کی عورتیں بیٹھی تھیں، اس لیے میں نے خادمہ کو یہ ہدایت کرکے بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ،اگر آپ ہاتھ سے اشارہ کریں تو ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہوجانا،فراغت کے بعد دریافت کرنا کہ آپ تو ان دو رکعت سے منع کرتے تھے اور اب خود انھیں ادا فرمارہے ہیں،اس کی کیا وجہ ہے؟فراغت کے بعد آپ نے فرمایا:"اے ابو امیہ کی بیٹی!تم نے مجھ سے نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے متعلق دریافت کیا ہے تو بات یہ ہے کہ میرے پاس قبیلۂ عبدالقیس کے لوگ آئے تھے،انھوں نے مجھے ظہر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا موقع نہ دیا،یہ وہی دورکعات ہیں۔"(صحیح البخاری، السھو، حدیث: 1233)
اور کریب نے حضرت ام سلمہ ؓکے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عصر کے بعد دو رکعات پڑھیں، پھر فرمایا کہ بنو عبدالقیس کے وفد سے گفتگو کی وجہ سے ظہر کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھاچنانچہ ان کو آپ نے بعد عصر ادا فرمایا۔ پھر آپ ﷺ گھر میں ان کو ادا کرتے ہی رہے۔ اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے، امت کے لیے یہ منع ہے۔ مگر قسطلانی نے کہا کہ محدثین نے اس سے دلیل لی ہے کہ فوت شدہ نوافل کا عصر کے بعد پڑھنا بھی درست ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتاہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جس دن بھی نبی ﷺ عصر کے بعد میرے ہاں تشریف لاتے تو دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ان دورکعات کو صرف ایک مرتبہ ان کے گھر ادا کیا جبکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے پتا چلتا ہے کہ آپ انھیں ہمیشہ پڑھتے رہے۔ ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ آپ نے ان دو رکعات کو بطور قضا پڑھا جیسا کہ حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں وضاحت ہےکہ یہ دورکعات نماز ظہر کے بعد والی ہیں جنھیں مصروفیت کی وجہ سے نہیں پڑھا جاسکا تھا۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:580) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بطور خصوصیت ہمیشہ پڑھتے رہے جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے۔ (2) بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد دورکعات کو سنت سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں منع کرتے اور ان پر سختی بھی فرماتے تھے۔ مبادا دوسرے لوگ گروب آفتاب تک نماز کے جواز کا حیلہ بنا لیں۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان اوقات میں ممانعت کی احادیث منسوخ ہیں لیکن ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ ممانعت کی احادیث محکم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعت اس لیے ادا کی تھیں کہ وفد عبدالقیس کی آمد کی وجہ سے آپ ظہر کی دو سنت نہیں پڑھ سکے تھے، لہٰذا آپ نے وہ دوسنت عصر کے بعد ادا کرلیں اور آپ کا یہ معمول تھا کہ جب کوئی عمل شروع کرتے تو بعد میں اس پر مداومت فرماتے، اس بنا پر عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا آپ نے معمول بنا لیا اور یہ عمل صرف آپ کے ساتھ ہی خاص تھا۔ عصر کے بعد دو رکعت ادا کرنا امت کے لیے کوئی مسنون عمل نہیں جیسا کہ بعض اہل علم کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے۔ والله اعلم۔
ترجمۃ الباب:
جناب کریب رحمہ اللہ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتی ہیں: نبی ﷺنے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا: "مجھے وفد عبدالقیس کے کچھ لوگوں نے مشغول کیے رکھا اور میری ظہر کے بعد دو رکعتیں رہ گئیں۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابو اسحاق سے بیان کیا، کہا کہ ہم نے اسود بن یزید اور مسروق بن اجدع کو دیکھا کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کے اس کہنے پر گواہی دی کہ نبی کریم ﷺ جب بھی میرے گھر میں عصر کے بعد تشریف لائے تو دو رکعت ضرور پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
مگر امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نمازوں سے منع فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) come to me after the 'Asr prayer, he always prayed two Rakat.