باب: مورتیں بنانے والوں پر قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ہوگا
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The punishment for picture-makers on the Day of Resurrection)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5951.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ یہ تصاویر بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا جو تم نے بنایا ہے اس میں روح بھی ڈالو۔“
تشریح:
(1) جاندار کی تصویر بنانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے لیکن جو ایسی تصاویر بناتے ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے وہ تو سرے سے کافر ہیں اور ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اگر عبادت کے لیے نہ ہو تو بھی سخت ترین سزا سے دوچار ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے، پھر اس میں بھی کوئی امتیاز نہیں کہ تصویر کپڑے پر ہو یا کاغذ پر یا کسی سکے پر نقش ہو یا کسی دیوار پر کندہ ہو، سب کے لیے مذکورہ وعید ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین قسم کی تصاویر تھیں: ٭لکڑی اور پتھروں کے بت بنائے جاتے، جنہیں تمثال کہا جاتا تھا۔ ان کا باقاعدہ جسم ہوتا تھا اور انہیں عبادت کے لیے تراشا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم دیا کہ اس قسم کی مورتیوں کو توڑ دیا جائے۔ ان کا تراشنا اور ان کا رکھنا حرام ہے۔ ٭کپڑوں پر تصاویر کے نقش ہوتے تھے، ان کا الگ کوئی وجود نہ تھا۔ ان کے متعلق حکم دیا کہ ایسے کپڑوں کو پھاڑ دیا جائے یا انہیں نیچے بچھا کر ان کی توہین کی جائے یا ان کے سر کاٹ کر درختوں کی طرح بنا دیا جائے۔ اس قسم کی تصاویر کے متعلق بھی سخت ممانعت ہے۔ ٭ شیشے پر کسی چیز کا عکس ابھر آتا ہے اسے بھی تصویر کا نام دیا جاتا ہے، جب انسان شیشے کے سامنے ہوتا ہے تو تصویر برقرار رہتی ہے جب بندہ اس کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے تو تصویر بھی غائب ہو جاتی ہے، اس کے متعلق کوئی وعید نہیں بلکہ اسے دیکھ کر ایک دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(3) دور حاضر میں دو قسم کی مزید تصاویر بھی ہمارے سامنے آئی ہیں، ان کا حکم بھی درج بالا تصاویر سے ملتا جلتا ہے۔ وہ تصاویر حسب ذیل ہے: ٭کاغذ پر چھپی ہوئی تصویر جیسا کہ اخبارات و جرائد میں مختلف قسم کے فوٹو شائع ہوتے ہیں۔ اس تصویر کا وہی حکم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کپڑے پر نقش تصویر کا ہے۔ ٭ویڈیو کی تصویر جسے لہروں کے ذریعے سے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اس کے متعلق مختلف آراء ہیں کچھ اہل علم اسے شیشے کی تصویر پر قیاس کر کے اس کا جواز ثابت کرتے ہیں اور کچھ اسے دوسری تصاویر کے ساتھ ملا کر اس کے متعلق حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق ویڈیو کی تصویر بھی کپڑے پر بنی ہوئی تصویر کے حکم میں ہے کیونکہ اسے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور جب بھی ضرورت پڑے اسے دیکھا جا سکتا ہے فتنے کا دروازہ بند کرنے کے لیے اسے ناجائز قرار دینا ہی مناسب ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5728
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5951
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5951
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5951
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ یہ تصاویر بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا جو تم نے بنایا ہے اس میں روح بھی ڈالو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جاندار کی تصویر بنانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے لیکن جو ایسی تصاویر بناتے ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے وہ تو سرے سے کافر ہیں اور ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اگر عبادت کے لیے نہ ہو تو بھی سخت ترین سزا سے دوچار ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے، پھر اس میں بھی کوئی امتیاز نہیں کہ تصویر کپڑے پر ہو یا کاغذ پر یا کسی سکے پر نقش ہو یا کسی دیوار پر کندہ ہو، سب کے لیے مذکورہ وعید ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین قسم کی تصاویر تھیں: ٭لکڑی اور پتھروں کے بت بنائے جاتے، جنہیں تمثال کہا جاتا تھا۔ ان کا باقاعدہ جسم ہوتا تھا اور انہیں عبادت کے لیے تراشا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق حکم دیا کہ اس قسم کی مورتیوں کو توڑ دیا جائے۔ ان کا تراشنا اور ان کا رکھنا حرام ہے۔ ٭کپڑوں پر تصاویر کے نقش ہوتے تھے، ان کا الگ کوئی وجود نہ تھا۔ ان کے متعلق حکم دیا کہ ایسے کپڑوں کو پھاڑ دیا جائے یا انہیں نیچے بچھا کر ان کی توہین کی جائے یا ان کے سر کاٹ کر درختوں کی طرح بنا دیا جائے۔ اس قسم کی تصاویر کے متعلق بھی سخت ممانعت ہے۔ ٭ شیشے پر کسی چیز کا عکس ابھر آتا ہے اسے بھی تصویر کا نام دیا جاتا ہے، جب انسان شیشے کے سامنے ہوتا ہے تو تصویر برقرار رہتی ہے جب بندہ اس کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے تو تصویر بھی غائب ہو جاتی ہے، اس کے متعلق کوئی وعید نہیں بلکہ اسے دیکھ کر ایک دعا پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(3) دور حاضر میں دو قسم کی مزید تصاویر بھی ہمارے سامنے آئی ہیں، ان کا حکم بھی درج بالا تصاویر سے ملتا جلتا ہے۔ وہ تصاویر حسب ذیل ہے: ٭کاغذ پر چھپی ہوئی تصویر جیسا کہ اخبارات و جرائد میں مختلف قسم کے فوٹو شائع ہوتے ہیں۔ اس تصویر کا وہی حکم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کپڑے پر نقش تصویر کا ہے۔ ٭ویڈیو کی تصویر جسے لہروں کے ذریعے سے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اس کے متعلق مختلف آراء ہیں کچھ اہل علم اسے شیشے کی تصویر پر قیاس کر کے اس کا جواز ثابت کرتے ہیں اور کچھ اسے دوسری تصاویر کے ساتھ ملا کر اس کے متعلق حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق ویڈیو کی تصویر بھی کپڑے پر بنی ہوئی تصویر کے حکم میں ہے کیونکہ اسے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور جب بھی ضرورت پڑے اسے دیکھا جا سکتا ہے فتنے کا دروازہ بند کرنے کے لیے اسے ناجائز قرار دینا ہی مناسب ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ یہ مورتیں بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جس کو تم نے بنایا ہے اب اس میں جان بھی ڈالو۔
حدیث حاشیہ:
مراد وہ مورتیں ہیں جو پوجنے کے لیے بنائی جائیں ایسی مورتیں بنانے والے کافر ہیں وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اگر پوجنے کے لیے نہ بنائیں تب بھی جاندار کی مورت بنانا کبیرہ گناہ ہے، اس کو سخت عذاب ہو گا بے جان اشیاء کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے مگر جاندار کا فوٹو کھینچنا بھی نا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Those who make these pictures will be punished on the Day of Resurrection, and it will be said to them. 'Make alive what you have created.'"