باب: اس کے بارے میں جس نے وقت نکل جانے کے بعد قضاء نماز لوگوں کے ساتھ جماعت سے پڑھی۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever led the people in Salat (prayer) after its time was over)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
596.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ خندق کے دن اس وقت آئے جب سورج غروب ہو چکا تھا۔ وہ کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نماز عصر بمشکل سورج غروب ہونے کے قریب ادا کر سکا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! عصر کی نماز میں بھی نہیں پڑھ سکا۔‘‘ پھر ہم نے وادی بطحان کا رخ کیا، آپ نے نماز کے لیے وضو فرمایا اور ہم سب نے بھی وضو کیا، پھر آپ نے غروب آفتاب کے بعد نماز عصر ادا کی، اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھائی۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں نماز عصر کے فوت ہونے کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں نماز ظہر اور نماز عصر کے رہ جانے کا بیان ہے۔ (مسند أحمد:3/25) اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ غزوہ خندق میں چار نمازیں رہ گئی تھیں۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي :4031) شارحین نے ان مختلف احادیث میں تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں بیان کی ہیں:٭صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی جائے اور باقی روایات کو مرجوح قرار دیا جائے۔ اس توجیہ کی تائید حضرت علی ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ کفارہ قریش نے ہمیں غزوۂ خندق کے موقع پر صلاۃ وسطی، یعنی نماز عصر پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث :1420(627))٭غزوۂ خندق کے موقع پر متعدد واقعات پیش آئے، کسی میں ایک نماز اور کسی میں اس سے زیادہ نمازیں فوت ہونے کا ذکر ہے۔ اس موقف کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو سعید اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں حضرت عمر ؓ سے متعلق کوئی ذکر نہیں، نیز ان روایات میں ہے کہ فوت شدہ نمازیں نماز مغرب کا وقت گزر جانے کے بعد پڑھی گئیں جبکہ صحیح بخا ری کی حدیث کے مطابق نماز عصر غروب آفتاب کے بعد ادا کی گئی۔ (فتح الباري:92/2) (2) اس حدیث میں فوت شدہ نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں، تاہم اسماعیلی کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی۔ اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ نمازوں کے لیے اقامت کہی گئی، پھر آپ نے اس طرح پڑھائیں جس طرح ان کے اوقات میں پڑھاتے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث:662) حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں بھی جماعت کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد:375/1) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی نمازیں اس لیے فوت ہوئیں کہ ابھی صلاۃ خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث:662)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
592
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
596
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
596
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
596
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے فوت شدہ نماز کے بجائے وقت گزر جانے کے بعد کہا ہے،اس میں اشارہ ہے کہ فوت شدہ نماز کی جماعت کا اہتمام وقت گزر جانے کے بعد جلدی ہونا چاہیے۔باجماعت ادا کرنے کا حکم ان فوت شدہ نمازوں کے متعلق نہیں جن کی عدم ادائیگی پر عرصہ گزرگیا ہو۔(فتح الباری:2/90)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ خندق کے دن اس وقت آئے جب سورج غروب ہو چکا تھا۔ وہ کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نماز عصر بمشکل سورج غروب ہونے کے قریب ادا کر سکا ہوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! عصر کی نماز میں بھی نہیں پڑھ سکا۔‘‘ پھر ہم نے وادی بطحان کا رخ کیا، آپ نے نماز کے لیے وضو فرمایا اور ہم سب نے بھی وضو کیا، پھر آپ نے غروب آفتاب کے بعد نماز عصر ادا کی، اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں نماز عصر کے فوت ہونے کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں نماز ظہر اور نماز عصر کے رہ جانے کا بیان ہے۔ (مسند أحمد:3/25) اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ غزوہ خندق میں چار نمازیں رہ گئی تھیں۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي :4031) شارحین نے ان مختلف احادیث میں تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں بیان کی ہیں:٭صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی جائے اور باقی روایات کو مرجوح قرار دیا جائے۔ اس توجیہ کی تائید حضرت علی ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ کفارہ قریش نے ہمیں غزوۂ خندق کے موقع پر صلاۃ وسطی، یعنی نماز عصر پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث :1420(627))٭غزوۂ خندق کے موقع پر متعدد واقعات پیش آئے، کسی میں ایک نماز اور کسی میں اس سے زیادہ نمازیں فوت ہونے کا ذکر ہے۔ اس موقف کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو سعید اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں حضرت عمر ؓ سے متعلق کوئی ذکر نہیں، نیز ان روایات میں ہے کہ فوت شدہ نمازیں نماز مغرب کا وقت گزر جانے کے بعد پڑھی گئیں جبکہ صحیح بخا ری کی حدیث کے مطابق نماز عصر غروب آفتاب کے بعد ادا کی گئی۔ (فتح الباري:92/2) (2) اس حدیث میں فوت شدہ نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں، تاہم اسماعیلی کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی۔ اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ نمازوں کے لیے اقامت کہی گئی، پھر آپ نے اس طرح پڑھائیں جس طرح ان کے اوقات میں پڑھاتے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث:662) حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں بھی جماعت کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد:375/1) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی نمازیں اس لیے فوت ہوئیں کہ ابھی صلاۃ خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث:662)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے حدیث نقل کی، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ غزوہ خندق کے موقع پر (ایک مرتبہ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ ﷺ نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
جنگ خندق یا جنگ احزاب 5ھ میں ہوئی۔ تفصیلی ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ اس روایت میں گویہ صراحت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ مگرآپ ﷺ کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے۔ لہٰذا یہ نماز بھی آپ ﷺ نے جماعت ہی سے پڑھی ہوگی۔ اوراسماعیلی کی روایت میں صاف یوں ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں: ''قَوْلُهُ: (مَا كِدْتُ) لَفْظَةُ كَادَ مِنْ أَفْعَالِ الْمُقَارَبَةِ، فَإِذَا قُلْت: كَادَ زَيْدٌ يَقُومُ، فُهِمَ مِنْهُ أَنَّهُ قَارَبَ الْقِيَامَ وَلَمْ يَقُمْ كَمَا تَقَرَّرَ فِي النَّحْوِ، وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِ قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْمَتْرُوكَةِ لِعُذْرِ الِاشْتِغَالِ بِالْقِتَالِ، وَقَدْ وَقَعَ الْخِلَافُ فِي سَبَبِ تَرْكِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَصْحَابِهِ لِهَذِهِ الصَّلَاةَ، فَقِيلَ: تَرَكُوهَا نِسْيَانًا وَقِيلَ: شُغِلُوا فَلَمْ يَتَمَكَّنُوا وَهُوَ الْأَقْرَبُ كَمَا قَالَ الْحَافِظُ وَفِي سُنَنِ النَّسَائِيّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُنْزِلَ اللَّهُ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ{فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا}وَسَيَأْتِي الْحَدِيثُ. وَقَدْ اُسْتُدِلَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَلَى وُجُوبِ التَّرْتِيبِ بَيْنَ الْفَوَائِتِ الْمَقْضِيَّةِ وَالْمُؤَدَّاةِالخ۔''(نیل الأوطار، ج:2ص:31)’’یعنی لفظکادافعال مقاربہ سے ہے۔ جب تم کاد زید یقوم( یعنی زید قریب ہوا کہ کھڑا ہو ) بولوگے تو اس سے سمجھا جائے گا کہ زید کھڑے ہونے کے قریب توہوا مگر کھڑا نہ ہوسکا جیساکہ نحو میں قاعدہ مقرر ہے۔ پس روایت میں حضرت عمرؓ کے بیان کا مقصد یہ کہ نماز عصر کے لیے انھوں نے آخر وقت تک کوشش کی مگر وہ ادا نہ کرسکے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کے ترجمہ میں نفی کی جگہ اثبات ہے کہ آخر وقت میں انھوں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔‘‘ مگر امام شوکانی ؒ کی وضاحت اورحدیث کا سیاق وسباق بتلارہاہے کہ نفی ہی کا ترجمہ درست ہے کہ وہ نماز عصر ادا نہ کرسکے تھے۔ اسی لیے وہ خود فرمارہے ہیں کہ فتوضأ للصلوٰة وتوضأنالهاکہ آپ نے بھی وضوکیا اورہم نے بھی اس کے لیے وضو کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ جو نمازیں جنگ وجہاد کی مشغولیت یا اورکسی شرعی وجہ سے چھوٹ جائیں ان کی قضاء واجب ہے اوراس میں اختلاف ہے کہ نبی ﷺ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نماز کیوں ترک ہوئیں۔ بعض بھول چوک کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اوربعض کا بیان ہے کہ جنگ کی تیزی اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اوریہی درست معلوم ہوتاہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایاہے۔ اورنسائی میں حضرت سعید ؓ کی روایت میں ہے کہ یہ صلوٰۃ خوف کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جب کہ حکم تھا کہ حالت جنگ میں پیدل یا سوار جس طرح بھی ممکن ہو نمازادا کرلی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فوت ہونے والی نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): On the day of Al-Khandaq (the battle of trench.) 'Umar bin Al-Khattab (RA) came cursing the disbelievers of Quraish after the sun had set and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) I could not offer the 'Asr prayer till the sun had set." The Prophet (ﷺ) said, "By Allah! I, too, have not prayed." So we turned towards Buthan, and the Prophet (ﷺ) performed ablution and we too performed ablution and offered the 'Asr prayer after the sun had set, and then he offered the Maghrib prayer.