باب: اگر کئی نمازیں قضاء ہو جائیں تو ان کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The Qada of prayers (Qada means to perform or offer or do a missed religious obligation after its stated time))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
598.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، حضرت عمر ؓ غزوہ خندق کے دن کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں غروب آفتاب تک بمشکل نماز عصر پڑھ سکا ہوں۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں: پھر ہم لوگ وادی بطحان میں گئے، تب آپ نے آفتاب غروب ہو جانے کے بعد نماز (عصر) پڑھی، اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضر نمازوں کی طرح فوت شدہ نمازوں کو بھی ترتیب کے مطابق ادا کیا جائے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس روایت میں صرف نماز عصر کا بیان ہے جبکہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب تین نمازیں فوت ہوئی تھیں، جنھیں عشاء کے وقت حسب ترتیب ادا کیا گیا، آخر میں نماز عشاء باجماعت ادا فرمائی۔ اگرچہ بعض فقہاء کا موقف ہے کہ پہلے، وقت کی نماز ادا کی جائے، اس کے بعد سابقہ فوت شدہ نمازیں ادا کی جائیں، تاہم رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ مبارکہ یہ ہے کہ پہلے فوت شدہ نمازیں حسب ترتیب پڑھی جائیں، پھر حاضر نماز کو ادا کیا جائے۔ اگرچہ آپ کا مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا، لیکن رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے میں ہی خیرو برکت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے روز مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو اس قدر مشغول کیا کہ آپ کی چار نمازیں رہ گئیں۔ آپ نے فرصت کے وقت حضرت بلال ؓ کو حکم دیا، انھوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عصر پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی۔ (مسند أحمد:375/1) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا اور وقت کی نماز کے درمیان ترتیب ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:631) اس امر نبوی کے تحت نماز کے سلسلے میں جتنے بھی افعال و اعمال آئیں گے، ہمارے نزدیک ان سب کا ادا کرنا ضروری ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
594
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
598
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
598
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
598
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس عنوان کو بعض محدثین نے ان الفاظ سے بیان کیا ہے"باب ترتیب الفوائت" ہم نے عنوان کا ترجمہ اسی اسلوب کے مطابق کیا ہے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، حضرت عمر ؓ غزوہ خندق کے دن کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں غروب آفتاب تک بمشکل نماز عصر پڑھ سکا ہوں۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں: پھر ہم لوگ وادی بطحان میں گئے، تب آپ نے آفتاب غروب ہو جانے کے بعد نماز (عصر) پڑھی، اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضر نمازوں کی طرح فوت شدہ نمازوں کو بھی ترتیب کے مطابق ادا کیا جائے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس روایت میں صرف نماز عصر کا بیان ہے جبکہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب تین نمازیں فوت ہوئی تھیں، جنھیں عشاء کے وقت حسب ترتیب ادا کیا گیا، آخر میں نماز عشاء باجماعت ادا فرمائی۔ اگرچہ بعض فقہاء کا موقف ہے کہ پہلے، وقت کی نماز ادا کی جائے، اس کے بعد سابقہ فوت شدہ نمازیں ادا کی جائیں، تاہم رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ مبارکہ یہ ہے کہ پہلے فوت شدہ نمازیں حسب ترتیب پڑھی جائیں، پھر حاضر نماز کو ادا کیا جائے۔ اگرچہ آپ کا مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا، لیکن رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے میں ہی خیرو برکت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے روز مشرکین مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو اس قدر مشغول کیا کہ آپ کی چار نمازیں رہ گئیں۔ آپ نے فرصت کے وقت حضرت بلال ؓ کو حکم دیا، انھوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عصر پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے نماز عشاء پڑھائی۔ (مسند أحمد:375/1) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا اور وقت کی نماز کے درمیان ترتیب ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نماز کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:631) اس امر نبوی کے تحت نماز کے سلسلے میں جتنے بھی افعال و اعمال آئیں گے، ہمارے نزدیک ان سب کا ادا کرنا ضروری ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے حدیث بیان کی، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے جو ابی کثیر کے بیٹے ہیں حدیث بیان کی ابوسلمہ سے، انھوں نے جابر ؓ سے، انھوں نے فرمایا کہ عمر ؓ غزوہ خندق کے موقع پر (ایک دن) کفار کو برا بھلا کہنے لگے۔ فرمایا کہ سورج غروب ہو گیا، لیکن میں (لڑائی کی وجہ سے) نماز عصر نہ پڑھ سکا۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ پھر ہم وادی بطحان کی طرف گئے۔ اور (آپ ﷺ نے عصر کی نماز) غروب شمس کے بعد پڑھی اس کے بعد مغرب پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے عصر کی نماز ادا کی پھر مغرب کی۔ ثابت ہوا کہ فوت شدہ نمازوں میں ترتیب کا خیال ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): Umar came cursing the disbelievers (of Quraish) on the day of Al-Khandaq (the battle of Trench) and said, "I could not offer the 'Asr prayer till the sun had set. Then we went to Buthan and he offered the ('Asr) prayer after sunset and then he offered the Maghrib prayer.