Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: What is disliked of Namima)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نون میں فرمایا عیب جو ، چغل خور اور سورۃ ہمزہ میں میں فرمایا ہر عیب جو آواز سے کسنے والے کی خرابی ہے ، یہمز و یلمز اور یعیب سب کے معنی ایک ہیں ۔ یعنی عیب بیان کرتا ہے طعنے مارتا ہے ۔
6056.
حضرت ہمام سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم حضرت حذیفہ ؓ کے پاس موجود تھے کہ انہیں ایک شخص کے متعلق کہا گیا وہ یہاں کی باتیں حضرت عثمان بن عفان ؓ کو پہچاتا ہے حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں قتات کے الفاظ ہیں جبکہ ایک روایت میں نمام مروی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:290(105)) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قتات اور نمام کے ایک ہی معنی (چغل خور) ہیں۔ لغت کے اعتبار سے ان میں یہ فرق ہے کہ نمام مجلس میں حاضررہ کر وہاں کی باتیں دوسروں کو بتاتا ہے جبکہ قتات چوری چھپے سن کر باتیں آگے پہنچاتا ہے۔ (2) بہرحال لوگوں میں فساد ڈالنے کی غرض سے ایک دوسرے کی باتیں اِدھر اُدھر نقل کرنا اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ اس قسم کی احادیث کو اسی طرح بغیر تأویل کے بیان کرنا چاہیے جس طرح نقل ہوئی ہیں تاکہ لوگ ایسے جرائم کا ارتکاب نہ کریں، اگرچہ یہ سزا زجر وتہدید پر محمول ہے اور ان کے معنی یہ ہیں کہ اس قسم کے کام کرنے والا ابتدائی طور پر جنت میں نہیں جائے گا، البتہ سزا بھگتنے کے بعد اس کے متعلق جنت کی امید کی جا سکتی ہے کیونکہ قرآن میں جنت میں نہ جانے کی سزا صرف مشرک کے لیے ہے۔واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5833
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6056
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6056
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6056
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
جو انسان دوسروں کی باتیں اِدھر اُدھر نقل کرکے فساد پھیلاتا ہے وہ ایک دن میں اتنا فساد برپا کردیتا ہے کہ جادوگر ایک ماہ میں نہیں کرسکتا۔بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جو غائبانہ چغلی کرے وہ ھمز ہے اور جو سامنے چغلی کرے اسے لمز کہا جاتا ہے۔واللہ اعلم
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نون میں فرمایا عیب جو ، چغل خور اور سورۃ ہمزہ میں میں فرمایا ہر عیب جو آواز سے کسنے والے کی خرابی ہے ، یہمز و یلمز اور یعیب سب کے معنی ایک ہیں ۔ یعنی عیب بیان کرتا ہے طعنے مارتا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ہمام سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم حضرت حذیفہ ؓ کے پاس موجود تھے کہ انہیں ایک شخص کے متعلق کہا گیا وہ یہاں کی باتیں حضرت عثمان بن عفان ؓ کو پہچاتا ہے حضرت حذیفہ ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں قتات کے الفاظ ہیں جبکہ ایک روایت میں نمام مروی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:290(105)) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قتات اور نمام کے ایک ہی معنی (چغل خور) ہیں۔ لغت کے اعتبار سے ان میں یہ فرق ہے کہ نمام مجلس میں حاضررہ کر وہاں کی باتیں دوسروں کو بتاتا ہے جبکہ قتات چوری چھپے سن کر باتیں آگے پہنچاتا ہے۔ (2) بہرحال لوگوں میں فساد ڈالنے کی غرض سے ایک دوسرے کی باتیں اِدھر اُدھر نقل کرنا اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ اس قسم کی احادیث کو اسی طرح بغیر تأویل کے بیان کرنا چاہیے جس طرح نقل ہوئی ہیں تاکہ لوگ ایسے جرائم کا ارتکاب نہ کریں، اگرچہ یہ سزا زجر وتہدید پر محمول ہے اور ان کے معنی یہ ہیں کہ اس قسم کے کام کرنے والا ابتدائی طور پر جنت میں نہیں جائے گا، البتہ سزا بھگتنے کے بعد اس کے متعلق جنت کی امید کی جا سکتی ہے کیونکہ قرآن میں جنت میں نہ جانے کی سزا صرف مشرک کے لیے ہے۔واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”بہت طعنے دینے والا چغلی کرت ہوئے پھرنے والا نیز فرمایا: ویل ہے اس کے لیے جو عیب تلاش کرنے والا اور طعنہ دینے والا ہے“۔ یھمز اور یلمز کے ایک ہی معنی ہیں یعنی عیب بیان کرنے والا
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور بن معمر نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے ہمام بن حارث نے بیان کیا کہ ہم حضرت حذیفہ ؓ کے پاس موجود تھے، ان سے کہا گیا کہ ایک شخص ایسا ہے جو یہاں کی باتیں حضرت عثمان سے جا لگاتا ہے۔ اس پر حضرت حذیفہ ؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ نے بتلایا کہ جنت میں چغل خور نہیں جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
وہ شخص جھوٹی باتیں حضرت عثمان تک پہنچایا کرتا تھا۔ اس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث ان کو سنائی قاضی عیاض نے کہا کہ قتات اور نمام کا ایک ہی معنی ہے بعض نے فرق کیا کہ نمام تو وہ ہے کہ جو قضیہ کے وقت موجود ہو پھر جان کر دوسروں کے سامنے اس کی چغلی کرے اور ”قتات“ وہ ہے جو بغیر دیکھے محض سن کر چغل خوری کرے، بہر حال قتات اور نمام دونوں حدیث بالا کی وعید میں داخل ہیں۔ وقال اللیث الھمزة من یغتابك بالغیب و اللمزة من یغتابك فی وجھك یعنی ہمزہ وہ لوگ جو پیٹھ پیچھے تیری برائی کرے اور لمزہ وہ جو سامنے برائی کریں۔ (فتح)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa (RA) : I heard the Prophet (ﷺ) saying, "A Qattat will not enter Paradise."