Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Al-Hijra)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے ۔ ( اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے )تشریح : یہاں دنیاوی جھگڑوں کی بنا پر ترک ملاقات مراد ہے۔ ویسے فساق فجار اور اہل بدعت سے ترک ملاقات کرنا جب تک وہ تو بہ نہ کریں درست ہے ۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءدہلوی حضرت ضیاءالدین سنامی کی عیادت کو گئے جو سخت بیمار تھے اور اطلاع کرائی۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بدعتی فقیروں سے نہیں ملتا ہوں چونکہ حضرت سلطان المشائخ کبھی کبھی سماع میں شریک رہتے اور مولانااس کو بدعت اورناجائز سمجھتے تھے۔ حضرت سلطان المشائخ نے کہا مولانا سے عرض کرو میں نے سماع سے توبہ کرلی ہے۔ یہ سنتے ہی مولانا نے فرمایا میرے سر کا عمامہ اتار کر بچھا دو اور سلطان مشائخ سے کہو کہ اس پر پاؤں رکھتے ہوئے تشریف لاویں معلوم ہوا کہ اللہ والے علمائے دین نے ہمیشہ بد عتیوں سے ترک ملاقات کیا ہے اور حدیث الحب للہ والبغض للہ کا یہی مفہوم ہے۔ واللہ اعلم ( وحیدی
6073.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے بن طفیل سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بیچی یا خیرات کی، انہیں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق کہا ہے: اللہ کی قسم! ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (خرید فروخت کرنے یا خیرات کرنے سے) اگر باز نہ آئیں تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا عبداللہ نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: پھر اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہے کہ میں ابن زبیر سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ اس کے بعد جب قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں سفارش کرائی لیکن انہوں نے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم! میں اس کے متعلق کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گی اور اپنی نذر ختم نہیں کروں گی جب عبداللہ بن ذبیر رضی اللہ عنہ کے لیے سلام وکلام کی بندش بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں گفتگو کی وہ دونوں بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھےـ (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے) ان سے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں مجھے تم کسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے جاؤ کیونکہ ان کے لیے جائز نہیں کہ میرے ساتھ قطع رحمی کی نذر مانیں، چنانچہ حضرت مسور اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ دونوں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لائے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته کہتے ہوئے عرض کی: ہم اندر آ سکتے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آ جاؤ۔ انہوں نے پھر عرض کی: ہم سب آ جائیں۔ فرمایا ہاں سب آ جاؤ۔ آپ کو علم نہیں تھا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب وہ داخل ہوئے تو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پردے کے اندر چلے گئے (کیونکہ وہ بھانجے تھے اور رونے لگے۔ حضرت مسور اور عبدالرحمن ؓ بھی (پردے کے باہر سے) آپ کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ سے گفتگو کریں اور ان سے در گزر فرمائیں۔ ان حضرات نے یہ بھی کہا: آپ کو معلوم ہے کہ نبی ﷺ نے قطع تعلقی سے منع فرمایا ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے کسی مسلمان کو اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رہنا جائز نہیں۔ جب انہوں نے کثرت کے ساتھ سیدہ عائشہ ؓ کو صلہ رحمی کی اہمیت یاد دلائی اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی انہیں وعظ ونصحیت فرمائی اور روتے ہوئے کہنے لگیں: میں نے تو نذر مانی ہے اور اس کی رعایت نہ کرنا سخت دشوار ہے لیکن یہ دونوں بزرگ بار بار کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ ام المومنین (سیدہ عائشہ ؓ)نے حضرت ابن زبیر ؓ سے گفتگو فرمائی اور اپنی نذر میں چالیس غلام آزاد کیے۔ ا سکے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو روتیں حتیٰ کہ آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔
تشریح:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو بیٹے کی حیثیت دی تھی اور وہ آپ کے حقیقی بھانجے بھی تھے۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ محبت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے تھی اور وہ بھی تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ سے حسن سلوک کرتے تھے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کے مال سے جو بھی ان کے ہاتھ آتا اسے فی سبیل اللہ خرچ کر دیتیں حتی کہ انھوں نے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک حویلی فروخت کر دی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا افسوس ہوا تو انھوں نے کہہ دیا کہ اگر آپ نے اپنی’’دریا دلی‘‘ پر نظر ثانی نہ کی تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ بس اتنی بات پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں اور بات چیت نہ کرنے کا عہد کر لیا۔ ایک مہربان ماں کے لیے اپنے بیٹے کو ادب سکھانے کی خاطر ایسا کرنا ضروری بھی تھا، لیکن یہ قطع تعلقی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو بہت گراں گزری۔ انھوں نے اپنی ماں کو راضی کرنے کے لیے بہت کوشش کی، مہاجرین کو درمیان میں لائے لیکن معاملہ جوں کا توں رہا، آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں کو درمیان میں لائے تو معاملہ حل ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بہت لحاظ رکھتی تھیں۔ ان حضرات کی وساطت سے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ گئے۔ آخر کار فرمانبردار بیٹے نے اپنی ماں کو راضی کر ہی لیا۔ نذر کا کفارہ دینے کے لیے دس غلام بھیجے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں آزاد کر دیا۔ غلاموں کو آزاد کرتے کرتے ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کاش! میں کوئی کام کرنے کی نذر مان لیتی، جب نذر ختم ہوتی تو میں وہ کام کر کے فارغ ہو جاتی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3505) (3) بہرحال ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لیے ہر تدبیر بروئے کار لانی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نا مناسب قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑنا ضروری ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ترک تعلق حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی تعلیم وتأدیب کے لیے تھا اور خطا کار حضرات سے ایسا ترک تعلق جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوشل بائیکاٹ فرمایا تھا۔ (فتح الباري:610/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5850
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6073
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6073
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6073
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
ہجرت سے مراد ملاقات کے وقت سلام وکلام ترک کرنا ہے۔یہ اس وقت باعث مذمت ہے جب ترک ملاقات دنیاوی جھگڑوں اور ذاتی معاملات کی وجہ سے ہو کیونکہ منافقین ،فجار اور اہل بدعت سے ملاقات نہ کرنا جائز ہے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں۔ مسلمانوں کے درمیان تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کا حرام ہونا نص سے ثابت ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ تین دن تک قطع تعلقی جائز ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں غصہ ہے،اس لیے تین دن تک غصہ کرنے کی اجازت ہے تاکہ غصے کا عارضہ جاتا رہے۔(فتح الباری:10/604)
اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے ۔ ( اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے )تشریح : یہاں دنیاوی جھگڑوں کی بنا پر ترک ملاقات مراد ہے۔ ویسے فساق فجار اور اہل بدعت سے ترک ملاقات کرنا جب تک وہ تو بہ نہ کریں درست ہے ۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءدہلوی حضرت ضیاءالدین سنامی کی عیادت کو گئے جو سخت بیمار تھے اور اطلاع کرائی۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بدعتی فقیروں سے نہیں ملتا ہوں چونکہ حضرت سلطان المشائخ کبھی کبھی سماع میں شریک رہتے اور مولانااس کو بدعت اورناجائز سمجھتے تھے۔ حضرت سلطان المشائخ نے کہا مولانا سے عرض کرو میں نے سماع سے توبہ کرلی ہے۔ یہ سنتے ہی مولانا نے فرمایا میرے سر کا عمامہ اتار کر بچھا دو اور سلطان مشائخ سے کہو کہ اس پر پاؤں رکھتے ہوئے تشریف لاویں معلوم ہوا کہ اللہ والے علمائے دین نے ہمیشہ بد عتیوں سے ترک ملاقات کیا ہے اور حدیث الحب للہ والبغض للہ کا یہی مفہوم ہے۔ واللہ اعلم ( وحیدی
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے بن طفیل سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بیچی یا خیرات کی، انہیں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق کہا ہے: اللہ کی قسم! ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (خرید فروخت کرنے یا خیرات کرنے سے) اگر باز نہ آئیں تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا عبداللہ نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: پھر اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہے کہ میں ابن زبیر سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ اس کے بعد جب قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں سفارش کرائی لیکن انہوں نے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم! میں اس کے متعلق کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گی اور اپنی نذر ختم نہیں کروں گی جب عبداللہ بن ذبیر رضی اللہ عنہ کے لیے سلام وکلام کی بندش بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں گفتگو کی وہ دونوں بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھےـ (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے) ان سے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں مجھے تم کسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے جاؤ کیونکہ ان کے لیے جائز نہیں کہ میرے ساتھ قطع رحمی کی نذر مانیں، چنانچہ حضرت مسور اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ دونوں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لائے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته کہتے ہوئے عرض کی: ہم اندر آ سکتے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: آ جاؤ۔ انہوں نے پھر عرض کی: ہم سب آ جائیں۔ فرمایا ہاں سب آ جاؤ۔ آپ کو علم نہیں تھا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب وہ داخل ہوئے تو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ پردے کے اندر چلے گئے (کیونکہ وہ بھانجے تھے اور رونے لگے۔ حضرت مسور اور عبدالرحمن ؓ بھی (پردے کے باہر سے) آپ کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ سے گفتگو کریں اور ان سے در گزر فرمائیں۔ ان حضرات نے یہ بھی کہا: آپ کو معلوم ہے کہ نبی ﷺ نے قطع تعلقی سے منع فرمایا ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے کسی مسلمان کو اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رہنا جائز نہیں۔ جب انہوں نے کثرت کے ساتھ سیدہ عائشہ ؓ کو صلہ رحمی کی اہمیت یاد دلائی اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی انہیں وعظ ونصحیت فرمائی اور روتے ہوئے کہنے لگیں: میں نے تو نذر مانی ہے اور اس کی رعایت نہ کرنا سخت دشوار ہے لیکن یہ دونوں بزرگ بار بار کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ ام المومنین (سیدہ عائشہ ؓ)نے حضرت ابن زبیر ؓ سے گفتگو فرمائی اور اپنی نذر میں چالیس غلام آزاد کیے۔ ا سکے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو روتیں حتیٰ کہ آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو بیٹے کی حیثیت دی تھی اور وہ آپ کے حقیقی بھانجے بھی تھے۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ محبت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے تھی اور وہ بھی تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ سے حسن سلوک کرتے تھے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کے مال سے جو بھی ان کے ہاتھ آتا اسے فی سبیل اللہ خرچ کر دیتیں حتی کہ انھوں نے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک حویلی فروخت کر دی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا افسوس ہوا تو انھوں نے کہہ دیا کہ اگر آپ نے اپنی’’دریا دلی‘‘ پر نظر ثانی نہ کی تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ بس اتنی بات پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں اور بات چیت نہ کرنے کا عہد کر لیا۔ ایک مہربان ماں کے لیے اپنے بیٹے کو ادب سکھانے کی خاطر ایسا کرنا ضروری بھی تھا، لیکن یہ قطع تعلقی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو بہت گراں گزری۔ انھوں نے اپنی ماں کو راضی کرنے کے لیے بہت کوشش کی، مہاجرین کو درمیان میں لائے لیکن معاملہ جوں کا توں رہا، آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں کو درمیان میں لائے تو معاملہ حل ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بہت لحاظ رکھتی تھیں۔ ان حضرات کی وساطت سے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ گئے۔ آخر کار فرمانبردار بیٹے نے اپنی ماں کو راضی کر ہی لیا۔ نذر کا کفارہ دینے کے لیے دس غلام بھیجے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں آزاد کر دیا۔ غلاموں کو آزاد کرتے کرتے ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کاش! میں کوئی کام کرنے کی نذر مان لیتی، جب نذر ختم ہوتی تو میں وہ کام کر کے فارغ ہو جاتی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3505) (3) بہرحال ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لیے ہر تدبیر بروئے کار لانی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نا مناسب قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑنا ضروری ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ترک تعلق حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی تعلیم وتأدیب کے لیے تھا اور خطا کار حضرات سے ایسا ترک تعلق جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوشل بائیکاٹ فرمایا تھا۔ (فتح الباري:610/10)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا وہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ ؓ نے کوئی چیز بھےجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جوان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ ؓ کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لئے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر ؓ سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلق پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر ؓ کے لئے ان سے سفارش کی گئی (کہ انہیں معاف فرما دیں) ام المؤمنین نے کہا ہر گز نہیں اللہ کی قسم اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطع تعلق عبداللہ بن زبیر ؓ کے لئے بہت تکلیف دہ ہو گیا تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث ؓ سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ ؓ کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر ؓ کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ ؓ سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ عائشہ ؓ نے کہا آ جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب؟ کہا ہاں، سب آ جاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر ؓ پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین ؓ سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے (کہ معاف کر دیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے) مسور اور عبدالرحمن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر ؓ سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں؟ ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی ﷺ نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اوررونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے بات کر لی اور اپنی قسم (توڑ نے) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔
حدیث حاشیہ:
(حجر کے معنی یہ کہ حاکم کسی شخص کو کم عقل یا ناقابل سمجھ کر یہ حکم دے دے کہ اس کا کوئی تصرف بیع ہبہ وغیرہ نافذ نہ ہو گا) اسی حدیث سے بہت سے مسائل کا ثبوت نکلتا ہے اور یہ بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پردہ کے ساتھ غیر محرم مردوں سے بوقت ضرورت بات کر لیتی تھیں اور پردہ کے ساتھ ان لوگوں کو گھر میں بلا لیتی تھیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ دو بگڑے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لئے ہر مناسب تدبیر کرنے چاہئے اور یہ بھی کہ غلط قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑنا ہی ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ "فھجرتھا منه کانت تأدیبا له وھذا من باب إباحة الھجران لمن عصی۔“ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ترک تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لئے تعلیم وتادیب کے لئے تھا اور عاصیوں سے ایسا ترک تعلق مباح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) that she was told that 'Abdullah bin Az-Zubair (on hearing that she was selling or giving something as a gift) said, "By Allah, if 'Aisha (RA) does not give up this, I will declare her incompetent to dispose of her wealth." I said, "Did he ('Abdullah bin Az-Zubair) say so?" They (people) said, "Yes." 'Aisha (RA) said, "I vow to Allah that I will never speak to Ibn Az-Zubair." When this desertion lasted long, 'Abdullah bin Az-Zubair sought intercession with her, but she said, "By Allah, I will not accept the intercession of anyone for him, and will not commit a sin by breaking my vow." When this state of affairs was prolonged on Ibn Az-Zubair (he felt it hard on him), he said to Al-Miswar bin Makhrama and 'Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth, who were from the tribe of Bani Zahra, "I beseech you, by Allah, to let me enter upon 'Aisha (RA), for it is unlawful for her to vow to cut the relation with me." So Al-Miswar and 'Abdur-Rahman, wrapping their sheets around themselves, asked 'Aisha's permission saying, "Peace and Allah's Mercy and Blessings be upon you! Shall we come in?" 'Aisha (RA) said, "Come in." They said, "All of us?" She said, "Yes, come in all of you," not knowing that Ibn Az-Zubair was also with them. So when they entered, Ibn Az-Zubair entered the screened place and got hold of 'Aisha (RA) and started requesting her to excuse him, and wept. Al-Miswar and 'Abdur Rahman also started requesting her to speak to him and to accept his repentance. They said (to her), "The Prophet (ﷺ) forbade what you know of deserting (not speaking to your Muslim Brethren), for it is unlawful for any Muslim not to talk to his brother for more than three nights (days)." So when they increased their reminding her (of the superiority of having good relation with kith and kin, and of excusing others' sins), and brought her down to a critical situation, she started reminding them, and wept, saying, "I have made a vow, and (the question of) vow is a difficult one." They (Al-Miswar and 'Abdur-Rahman) persisted in their appeal till she spoke with 'Abdullah bin Az-Zubair and she manumitted forty slaves as an expiation for her vow. Later on, whenever she remembered her vow, she used to weep so much that her veil used to become wet with her tears.