Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Al-Hijra)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے ۔ ( اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے )تشریح : یہاں دنیاوی جھگڑوں کی بنا پر ترک ملاقات مراد ہے۔ ویسے فساق فجار اور اہل بدعت سے ترک ملاقات کرنا جب تک وہ تو بہ نہ کریں درست ہے ۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءدہلوی حضرت ضیاءالدین سنامی کی عیادت کو گئے جو سخت بیمار تھے اور اطلاع کرائی۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بدعتی فقیروں سے نہیں ملتا ہوں چونکہ حضرت سلطان المشائخ کبھی کبھی سماع میں شریک رہتے اور مولانااس کو بدعت اورناجائز سمجھتے تھے۔ حضرت سلطان المشائخ نے کہا مولانا سے عرض کرو میں نے سماع سے توبہ کرلی ہے۔ یہ سنتے ہی مولانا نے فرمایا میرے سر کا عمامہ اتار کر بچھا دو اور سلطان مشائخ سے کہو کہ اس پر پاؤں رکھتے ہوئے تشریف لاویں معلوم ہوا کہ اللہ والے علمائے دین نے ہمیشہ بد عتیوں سے ترک ملاقات کیا ہے اور حدیث الحب للہ والبغض للہ کا یہی مفہوم ہے۔ واللہ اعلم ( وحیدی
6077.
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ میل ملاقات چھوڑے رہے، ا س طرح جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے۔ اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“
تشریح:
(1) ان احادیث کے مطابق تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرنا اور میل جول چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ اگر کہیں ناراضی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی ختم کر لینا کسی صورت میں روا نہیں ہے۔ اگر مزید روابط بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام ودعا سے بخل کرنا درست نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کی اور اسی حالت میں مرگیا تو وہ آگ میں جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد:392/2، وإرواء الغلیل للألباني:92/7، رقم:2029) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’اگر تین دن قطع تعلقی پر گزر جائیں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے ملے اور اسے سلام کہے۔ اگر وہ سلام کا جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے۔اگر وہ جواب نہ دے تو اس کا گناہ اسی دوسرے پر ہے اور سلام کرنے والا قطع تعلقی کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4219) (2) واضح رہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب دنیاوی مفادات اور ذاتی معاملات کے پیش نظر ہو اور اگریہ قطع تعلقی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتو قابل تعریف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ عنوان میں بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5852
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6077
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6077
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6077
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
ہجرت سے مراد ملاقات کے وقت سلام وکلام ترک کرنا ہے۔یہ اس وقت باعث مذمت ہے جب ترک ملاقات دنیاوی جھگڑوں اور ذاتی معاملات کی وجہ سے ہو کیونکہ منافقین ،فجار اور اہل بدعت سے ملاقات نہ کرنا جائز ہے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں۔ مسلمانوں کے درمیان تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کا حرام ہونا نص سے ثابت ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ تین دن تک قطع تعلقی جائز ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں غصہ ہے،اس لیے تین دن تک غصہ کرنے کی اجازت ہے تاکہ غصے کا عارضہ جاتا رہے۔(فتح الباری:10/604)
اور رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان کہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے ۔ ( اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے )تشریح : یہاں دنیاوی جھگڑوں کی بنا پر ترک ملاقات مراد ہے۔ ویسے فساق فجار اور اہل بدعت سے ترک ملاقات کرنا جب تک وہ تو بہ نہ کریں درست ہے ۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاءدہلوی حضرت ضیاءالدین سنامی کی عیادت کو گئے جو سخت بیمار تھے اور اطلاع کرائی۔ مولانا نے فرمایا کہ میں بدعتی فقیروں سے نہیں ملتا ہوں چونکہ حضرت سلطان المشائخ کبھی کبھی سماع میں شریک رہتے اور مولانااس کو بدعت اورناجائز سمجھتے تھے۔ حضرت سلطان المشائخ نے کہا مولانا سے عرض کرو میں نے سماع سے توبہ کرلی ہے۔ یہ سنتے ہی مولانا نے فرمایا میرے سر کا عمامہ اتار کر بچھا دو اور سلطان مشائخ سے کہو کہ اس پر پاؤں رکھتے ہوئے تشریف لاویں معلوم ہوا کہ اللہ والے علمائے دین نے ہمیشہ بد عتیوں سے ترک ملاقات کیا ہے اور حدیث الحب للہ والبغض للہ کا یہی مفہوم ہے۔ واللہ اعلم ( وحیدی
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ میل ملاقات چھوڑے رہے، ا س طرح جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے۔ اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث کے مطابق تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرنا اور میل جول چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ اگر کہیں ناراضی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی ختم کر لینا کسی صورت میں روا نہیں ہے۔ اگر مزید روابط بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام ودعا سے بخل کرنا درست نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کی اور اسی حالت میں مرگیا تو وہ آگ میں جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد:392/2، وإرواء الغلیل للألباني:92/7، رقم:2029) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’اگر تین دن قطع تعلقی پر گزر جائیں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے ملے اور اسے سلام کہے۔ اگر وہ سلام کا جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے۔اگر وہ جواب نہ دے تو اس کا گناہ اسی دوسرے پر ہے اور سلام کرنے والا قطع تعلقی کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4219) (2) واضح رہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب دنیاوی مفادات اور ذاتی معاملات کے پیش نظر ہو اور اگریہ قطع تعلقی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتو قابل تعریف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ عنوان میں بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالرحمن بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک ؓ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لیے ملاقات چھوڑے، اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔
حدیث حاشیہ:
اس کے بعد اگر وہ فریق ثانی بات چیت نہ کرے سلام کا جواب نہ دے تو وہ گنہگار رہے گا اور یہ شخص گناہ سے بچ جائے گا۔ قرآن کی آیت ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا یہی مطلب ہے کہ باہمی نا چاقی کو احسن طریق پر ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ آیت یاد رکھنے کی توفیق دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Aiyub Al-Ansari (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "It is not lawful for a man to desert his brother Muslim for more than three nights. (It is unlawful for them that) when they meet, one of them turns his face away from the other, and the other turns his face from the former, and the better of the two will be the one who greets the other first."