باب: جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو جس میں کفر کی وجہ نہ ہو کافر کہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Whoever calls his brother a Kafir without any grounds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6103.
سیدہ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے: اے کافر! تو ان دونوں مین سے ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے۔“ عکرمہ بن عمار نے یحییٰ سے، انہوں نے عبداللہ بن یزید سے، انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے سنا انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5877
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6103
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6103
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6103
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے مسئلہ تکفیر میں وہی موقف اختیار کیا ہے جو عام اہل سنت کا ہے کہ لوگ دیندار ہیں اور شرائع اسلام پر عمل کرتے ہیں، اس کے علاوہ وہ تمام انبیاء علیہم السلام کو ماننے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں پر یقین رکھنے والے ہیں لیکن عقائد و نظریات میں سنگین قسم کی خرابیوں کے مرتکب ہیں اور عقائد کی خرابی کسی انکار و تکذیب کی وجہ سے نہیں بلکہ معقول تاویل یا جہالت کی وجہ سے ہے تو ایسے لوگوں کو دین اسلام سے خارج قرار نہ دیا جائے اور نہ کسی کو کافر کہا جائے بلکہ اس قسم کے لوگوں سے روایات لینے میں بھی نرم گوشہ رکھا جائے بشرطیکہ وہ عدالت و امانت والے ہوں اور صداقت و پرہیز گاری میں مشہور ہوں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے اپنی صحیح میں کئی ایک اسلوب اور انداز اختیار کیے ہیں جن میں ایک درج بالا اور آئندہ عنوان ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ اگر کوئی انسان ایمان کے منافی کسی بات یا عمل کا مرتکب ہوتا ہے اگر اس کا ارتکاب معقول تاویل یا جہالت کی وجہ سے ہے تو اسے دین اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا ہاں، اگر کوئی دیدہ دانستہ تاویل و جہالت کے بغیر کسی کفر پر مبنی بات یا کام کا مرتکب ہے تو بلاشبہ وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے۔ اب اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے چند احادیث پیش کی ہیں۔
سیدہ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے: اے کافر! تو ان دونوں مین سے ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے۔“ عکرمہ بن عمار نے یحییٰ سے، انہوں نے عبداللہ بن یزید سے، انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے سنا انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یحییٰ ذیلی (یا محمد بن بشار) اور احمد بن سعید دارمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو کہتا ہے کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔ اور عکرمہ بن عمار نے یحییٰ سے بیان کیا کہ ان سے عبداللہ بن یزید نے کہا، انہوں نے ابو سلمہ سے سنا اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
جس کو کافر کہا وہ واقعہ میں کافر ہے تب تو وہ کافر ہے اور جب وہ کافر نہیں تو کہنے والا کافر ہو گیا۔ اسی لئے اہلحدیث نے تکفیر میں بڑی احتیاط برتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے لیکن متاخرین فقہاء اپنی کتابوں میں ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر اپنے مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں، صاحب در مختار نے بڑی جرات سے یہ فتویٰ درج کر دیا۔ فلعنة ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبي حنیفة یعنی جو حضرت امام ابو حنیفہ کے کسی قول کو رد کر دے اس پر اتنی لعنت ہو جتنے دنیا میں ذرات ہیں۔ کہئے اس اصول کے موافق تو سارے ائمہ دین ملعون ٹھہرے جنہوں نے بہت سے مسائل میں حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو رد کیا ہے۔ خود حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں نے کتنے ہی مسائل میں حضرت امام سے اختلاف کیا ہے تو کیا صاحب درمختار کے نزدیک وہ بھی سب ملعون اور مطرود تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ایسے لوگوں نے پیغمبر سمجھ لیا ہے یا آیت اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ کے تحت ان کو خدا بنا لیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک عالم دین تھے، ان سے کتنے ہی مسائل میں خطا ہوئی وہ معصوم نہیں تھے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو بلا تحقیق محض گمان کی بنا پر مسلمانوں کو مشرک یا کافر کہہ دیتے ہیں۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "If a man says to his brother, O Kafir (disbeliever)!' Then surely one of them is such (i.e., a Kifir). "