Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: What to say when one is angry or harsh for Allah's sake)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورۃ برات میں ” کفاراور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سختی کر ۔
6111.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس اثناء میں آپ نے مسجد میں قبیلے کی جانب بلغم دیکھا، آپ نے اسے دست مبارک میں صاف کیا اورغصے ہوئے، پھر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے سامنے ہوتا ہے لہذا کوئی شخص دوران نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:455) کیونکہ مساجد، اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1528(671)) ایک اور حدیث میں مسجد میں تھوکنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:415) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیکھا تو آپ نے ایک شاخ سے اسے صاف کر دیا، پھر آپ نے اس بلغم والی جگہ پر خوشبو لگائی۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:485) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صرف اس لیے امامت سے الگ کر دیا تھا کہ اس نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:481) ایسے حالات میں مسجد کے تقدس کو ماپال ہوتا دیکھ کر آپ کیسے خاموش رہ سکتے تھے، آپ کا غصہ برمحل اور اللہ تعالیٰ کے لیے تھا۔ جسے آپ نے امامت سے الگ کیا تھا، اسے فرمایا: ’’اس کام سے تو نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5885
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6111
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6111
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6111
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل درآمد کرنے کے لیے غصے میں آنا اور سختی کرنا جائز ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اذیت پر صبر کرنا آپ کے اپنے حق کے متعلق تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق کی پاسداری کے لیے وہی کچھ کیا جو اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ کفار کے خلاف تلوار اٹھائی اور منافقین پر حجت قائم کر کے ان سے جہاد کیا۔ (فتح الباری:10/636)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا سورۃ برات میں ” کفاراور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سختی کر ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس اثناء میں آپ نے مسجد میں قبیلے کی جانب بلغم دیکھا، آپ نے اسے دست مبارک میں صاف کیا اورغصے ہوئے، پھر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے سامنے ہوتا ہے لہذا کوئی شخص دوران نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:455) کیونکہ مساجد، اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں ہیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1528(671)) ایک اور حدیث میں مسجد میں تھوکنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:415) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیکھا تو آپ نے ایک شاخ سے اسے صاف کر دیا، پھر آپ نے اس بلغم والی جگہ پر خوشبو لگائی۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:485) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صرف اس لیے امامت سے الگ کر دیا تھا کہ اس نے مسجد میں قبلے کی جانب تھوک دیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:481) ایسے حالات میں مسجد کے تقدس کو ماپال ہوتا دیکھ کر آپ کیسے خاموش رہ سکتے تھے، آپ کا غصہ برمحل اور اللہ تعالیٰ کے لیے تھا۔ جسے آپ نے امامت سے الگ کیا تھا، اسے فرمایا: ’’اس کام سے تو نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”(اے نبی!) کفارہ ومنافقین کے خلاف جہاد کرو اور پر سختی کرو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ نے مسجد میں قبلہ کی جانب منہ کا تھوک دیکھا۔ پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کیا اور غصہ ہوئے پھر فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے اللہ تعالی اس کے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : While the Prophet (ﷺ) was praying, he saw sputum (on the wall) of the mosque, in the direction of the Qibla, and so he scraped it off with his hand, and the sign of disgust (was apparent from his face) and then said, "Whenever anyone of you is in prayer, he should not spit in front of him (in prayer) because Allah is in front of him."