Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The Adhan before Al-Fajr (dawn))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
622.
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’بلال رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے سحری کھاؤ اور پیو، تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔‘‘
تشریح:
(1) عنوان کا مقصد صبح کے وقت اذان اول کی مشروعیت بیان کرنا ہے جیسا کہ جمہور علماء کا موقف ہے، لیکن اس کے بعد اذان ثانی کہنا ضروری ہے یا اذان اول پر اکتفا کیا جاسکتا ہے؟ اس کے متعلق امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ؒ کا موقف ہے کہ اذان اول پر اکتفا کرنا جائز ہے، جبکہ محدث ابن خزیمہ، امام ابن منذر اور کچھ اہل علم حضرات کہتے ہیں کہ نماز فجر کے لیے اذان اول کافی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لیے اذان ثانی کہنا ضروری ہے، چنانچہ حضرت امام بخاری ؒ کا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث لانے کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ اذان اول کافی نہیں ہوگی۔ بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ قبل از فجر اذان کے الفاظ عام اذان جیسے نہ تھے لیکن یہ دعویٰ بلا دلیل ہے بلکہ احادیث میں اسے بھی اذان ہی سے تعبیر کیا گیا ہے، نیز اگر اس کے الفاظ دوسری اذان سے مختلف ہوتے تو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ بلال رات کو اذان دیتا ہے، لہٰذا اس کی اذان سے روزے دارکے لیےکھانا پینا حرام نہیں ہوتا۔ اس وضاحت کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی کہ الفاظ کے اعتبار سے دونوں اذانیں ایک جیسی تھیں۔ (فتح الباري:137/2) (2) ہمارے ہاں اذان اول کے متعلق عام عادت یہ ہے کہ اسے اذان تہجد کا نام دیا جاتا ہے، پھر اسے اذان فجر سے کم از کم ایک گھنٹا پہلے کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ اذان قطعی طور پر تہجد کےلیے نہیں بلکہ تہجد پڑھنے والوں کو واپس گھر لوٹانے کےلیے دی جاتی ہے تاکہ وہ آرام کرلیں اور اگرروزہ رکھنا ہے تو سحری وغیرہ تناول کرلیں۔ اور اس کا دوسرا مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ یہ سوئے ہوؤں کو بیدار کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ اٹھیں اور اپنی حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر نماز فجر کےلیے تیاری کریں۔ اس کام کےلیے پندرہ بیس منٹ ہی کافی ہیں، کیونکہ احادیث میں وضاحت ہے کہ دونوں حضرات کے اذان دینے کے درمیان صرف اتنا وقت ہوتا کہ پہلی اذان سے فراغت کے بعد وہ نیچے اتر رہا ہوتا اور دوسرااذان دینے کےلیے اوپر جارہا ہوتا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1919) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں بھی یہ وضاحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 2538(1092)) اگرچہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان وقت کی قلت کو بیان کرنے کےلیے یہ الفاظ بطور مبالغہ ہیں کیونکہ اذان اول کے جو مقاصد احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان سے مذکورہ الفاظ کے معنی متعین ہوسکتے ہیں کہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان کم از کم اتنا وقت ہونا چاہیے کہ ایک تہجد گزار اپنے گھر آکر سحری وغیرہ کھا سکے، اتنا کم وقت نہ ہو کہ اس اذان کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔ بہر حال اذان اول، اذان تہجد نہیں، بلکہ سحری کی اذان ہے اور اس کے اور دوسری اذان کے درمیان گھنٹے یا دو گھنٹے کا وقفہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
618
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
622
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
622
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
622
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس اذان سے نماز کے وقت کی اطلاع دینا مقصود نہیں بلکہ یہ سحری کی اذان ہے کیونکہ وقت کی اطلاع کے لیے جو اذان دی جاتی ہے وہ طلوع فجر کے بعد ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے وضاحت کردی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھم سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’بلال رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے سحری کھاؤ اور پیو، تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عنوان کا مقصد صبح کے وقت اذان اول کی مشروعیت بیان کرنا ہے جیسا کہ جمہور علماء کا موقف ہے، لیکن اس کے بعد اذان ثانی کہنا ضروری ہے یا اذان اول پر اکتفا کیا جاسکتا ہے؟ اس کے متعلق امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ؒ کا موقف ہے کہ اذان اول پر اکتفا کرنا جائز ہے، جبکہ محدث ابن خزیمہ، امام ابن منذر اور کچھ اہل علم حضرات کہتے ہیں کہ نماز فجر کے لیے اذان اول کافی نہیں ہوگی، بلکہ اس کے لیے اذان ثانی کہنا ضروری ہے، چنانچہ حضرت امام بخاری ؒ کا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث لانے کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ اذان اول کافی نہیں ہوگی۔ بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ قبل از فجر اذان کے الفاظ عام اذان جیسے نہ تھے لیکن یہ دعویٰ بلا دلیل ہے بلکہ احادیث میں اسے بھی اذان ہی سے تعبیر کیا گیا ہے، نیز اگر اس کے الفاظ دوسری اذان سے مختلف ہوتے تو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ بلال رات کو اذان دیتا ہے، لہٰذا اس کی اذان سے روزے دارکے لیےکھانا پینا حرام نہیں ہوتا۔ اس وضاحت کی ضرورت ہی اس لیے پیش آئی کہ الفاظ کے اعتبار سے دونوں اذانیں ایک جیسی تھیں۔ (فتح الباري:137/2) (2) ہمارے ہاں اذان اول کے متعلق عام عادت یہ ہے کہ اسے اذان تہجد کا نام دیا جاتا ہے، پھر اسے اذان فجر سے کم از کم ایک گھنٹا پہلے کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ اذان قطعی طور پر تہجد کےلیے نہیں بلکہ تہجد پڑھنے والوں کو واپس گھر لوٹانے کےلیے دی جاتی ہے تاکہ وہ آرام کرلیں اور اگرروزہ رکھنا ہے تو سحری وغیرہ تناول کرلیں۔ اور اس کا دوسرا مقصد یہ بیان ہوا ہے کہ یہ سوئے ہوؤں کو بیدار کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ اٹھیں اور اپنی حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر نماز فجر کےلیے تیاری کریں۔ اس کام کےلیے پندرہ بیس منٹ ہی کافی ہیں، کیونکہ احادیث میں وضاحت ہے کہ دونوں حضرات کے اذان دینے کے درمیان صرف اتنا وقت ہوتا کہ پہلی اذان سے فراغت کے بعد وہ نیچے اتر رہا ہوتا اور دوسرااذان دینے کےلیے اوپر جارہا ہوتا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1919) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں بھی یہ وضاحت موجود ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 2538(1092)) اگرچہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان وقت کی قلت کو بیان کرنے کےلیے یہ الفاظ بطور مبالغہ ہیں کیونکہ اذان اول کے جو مقاصد احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان سے مذکورہ الفاظ کے معنی متعین ہوسکتے ہیں کہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان کم از کم اتنا وقت ہونا چاہیے کہ ایک تہجد گزار اپنے گھر آکر سحری وغیرہ کھا سکے، اتنا کم وقت نہ ہو کہ اس اذان کا مقصد ہی فوت ہوجائے۔ بہر حال اذان اول، اذان تہجد نہیں، بلکہ سحری کی اذان ہے اور اس کے اور دوسری اذان کے درمیان گھنٹے یا دو گھنٹے کا وقفہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابواسامہ حماد بن اسامہ نے خبر دی، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے قاسم بن محمد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بیان کیا اور نافع نے ابن عمر سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلال رات رہے میں اذان دیتے ہیں۔ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان تک تم (سحری) کھا پی سکتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The Prophet (ﷺ) said, " Bilal (RA) pronounces the Adhan at night, so eat and drink (Suhur) till Ibn Um Maktum pronounces the Adhan."