Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: As-Salam is one of the Names of Allah 'Azza wa Jall)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
سلام اللہ تعالیٰ کے نامو ں میں سے ایک نام ہے اور اللہ پاک نے سورۃ نساءمیں فرمایا اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بڑھ کر اچھا جواب دویا ( کم ازکم ) اتنا ہی جواب دو۔ “السلام علیکم کے معنی ہوئے کہ اللہ پاک تم کو محفوظ رکھے ہر بلاسے بچائے۔ یہ بہترین دعا ہے جو ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو ملاقات پر پیش کرتاہے۔ سلام کی تکمیل مصافحہ سے ہوتی ہے مصافحہ کے معنی دونوں کا اپنے دائیں ہاتھوں کو ملانا اس میں صرف دایاں ہاتھ استعمال ہونا چاہئے۔
6230.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو اس طرح کہتے تھے: اللہ کے بندوں کی طرف سے اللہ پر سلام ہو۔ حضرت میکائیل ؑ پر سلامتی ہو، فلاں پر سلام ہو۔ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری کر لی تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”اللہ تعالٰی تو خود سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو کہے: تمام عبادتیں نمازیں اور پاکیزہ کلمات اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام ہو، آپ پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکات نازل ہوں۔ ہم پر بھی سلام ہو اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر بھی۔ جب نمازی یہ کہے گا تو زمین وآسمان کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچ جائے گا۔ پھر یہ کہو: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نیز میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اسکے رسول ہیں۔ اس کے بعد جو دعا نمازی کو پسندہو وہ پڑھے۔“
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ السلام، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، پھر اسے ثابت کرنے کے لیے مذکورہ حدیث پیش کی جس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ تو خود سلام ہے۔ ایک دوسری حدیث میں مزید صراحت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو اتنی دیر قبلہ رخ ہو کر بیٹھتے جتنی دیر آپ کو یہ کلمات پڑھنے میں لگتی ہے: ’’یا اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، اے بزرگی اور جاہ و جلال کے مالک! تیری ذات بڑی بابرکت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1335(592) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ تم یہ نہ کہو: ’’اللہ پر سلام ہو، اللہ تو خود سلام ہے، اس کے لیے سلامتی کی دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835) (2) سلام کے معنی ہیں: ظاہری اور باطنی آفات و عیوب سے پاک اور محفوظ رہنا۔ اور سلم ایسی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ذات میں درست بھی ہو اور اس پر کسی دوسرے کا حق بھی نہ ہو، جب اس لفظ سے لفظ سلام بنتا ہے تو اس میں ازخود مبالغہ پیدا ہو جاتا ہے جیسا کہ کسی خوبصورت انسان کو کہہ دیا جائے کہ تو سراپا حسن ہے۔ اس لفظ کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو بھی سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے، انہوں نے فرمایا: سلام اللہ تعالیٰ کا مقدس نام ہے اور اہل جنت کا سلام ہے۔ (شعب الإیمان للبیھقي، رقم الحدیث:8449، وفتح الباري:17/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6004
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6230
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6230
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6230
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک مرفوع حدیث کو عنوان قرار دیا ہے جسے انہوں نے اپنی دوسری تالیف ''الادب المفرد'' میں بیان کیا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''السلام، اللہ کے ناموں میں سے سے ایک نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کے لیے منتخب کیا ہے، لہذا تم اسے آپس میں بکثرت استعمال کیا کرو۔'' (الادب المفرد، حدیث:989) بہرحال السلام، اللہ تعالیٰ کے مقدس ناموں میں سے ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ نام آیا ہے۔ (الحشر59: 23) اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص و عیب سے پاک ہے، نیز وہ اپنے بندوں کو سلامتی و عافیت دینے والا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ آیت کریمہ میں ایک عام حکم دیا گیا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ تحیہ سے مراد عام تحفہ نہیں بلکہ سلام ہے جیسا کہ اس کے متعلق متعدد احادیث وارد ہیں۔ (فتح الباری:11/18)
سلام اللہ تعالیٰ کے نامو ں میں سے ایک نام ہے اور اللہ پاک نے سورۃ نساءمیں فرمایا اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بڑھ کر اچھا جواب دویا ( کم ازکم ) اتنا ہی جواب دو۔ “السلام علیکم کے معنی ہوئے کہ اللہ پاک تم کو محفوظ رکھے ہر بلاسے بچائے۔ یہ بہترین دعا ہے جو ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو ملاقات پر پیش کرتاہے۔ سلام کی تکمیل مصافحہ سے ہوتی ہے مصافحہ کے معنی دونوں کا اپنے دائیں ہاتھوں کو ملانا اس میں صرف دایاں ہاتھ استعمال ہونا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو اس طرح کہتے تھے: اللہ کے بندوں کی طرف سے اللہ پر سلام ہو۔ حضرت میکائیل ؑ پر سلامتی ہو، فلاں پر سلام ہو۔ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پوری کر لی تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ”اللہ تعالٰی تو خود سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو کہے: تمام عبادتیں نمازیں اور پاکیزہ کلمات اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام ہو، آپ پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکات نازل ہوں۔ ہم پر بھی سلام ہو اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر بھی۔ جب نمازی یہ کہے گا تو زمین وآسمان کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچ جائے گا۔ پھر یہ کہو: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نیز میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اسکے رسول ہیں۔ اس کے بعد جو دعا نمازی کو پسندہو وہ پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ السلام، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، پھر اسے ثابت کرنے کے لیے مذکورہ حدیث پیش کی جس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ تو خود سلام ہے۔ ایک دوسری حدیث میں مزید صراحت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو اتنی دیر قبلہ رخ ہو کر بیٹھتے جتنی دیر آپ کو یہ کلمات پڑھنے میں لگتی ہے: ’’یا اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، اے بزرگی اور جاہ و جلال کے مالک! تیری ذات بڑی بابرکت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1335(592) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ تم یہ نہ کہو: ’’اللہ پر سلام ہو، اللہ تو خود سلام ہے، اس کے لیے سلامتی کی دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:835) (2) سلام کے معنی ہیں: ظاہری اور باطنی آفات و عیوب سے پاک اور محفوظ رہنا۔ اور سلم ایسی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ذات میں درست بھی ہو اور اس پر کسی دوسرے کا حق بھی نہ ہو، جب اس لفظ سے لفظ سلام بنتا ہے تو اس میں ازخود مبالغہ پیدا ہو جاتا ہے جیسا کہ کسی خوبصورت انسان کو کہہ دیا جائے کہ تو سراپا حسن ہے۔ اس لفظ کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو بھی سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شعب الایمان کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے، انہوں نے فرمایا: سلام اللہ تعالیٰ کا مقدس نام ہے اور اہل جنت کا سلام ہے۔ (شعب الإیمان للبیھقي، رقم الحدیث:8449، وفتح الباري:17/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ ؓ نے بیان کیا کہ جب ہم (ابتداء اسلام میں) نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے ”سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں سے پہلے، سلام ہو جبریل پر، سلام ہو میکائیل پر، سلام ہو فلاں پر، پھر (ایک مرتبہ) جب آنحضرت ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اللہ ہی سلام ہے۔ اس لئے جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو ''التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ۔'' الخ پڑھا کرے۔ کیونکہ جب وہ یہ دعا پڑہے گا تو آسمان وزمین کے ہر صالح بندے کو اس کی یہ دعا پہنچے گی۔ ''أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ'' اس کے بعد اسے اختیار ہے جو دعا چاہے پڑھے۔ (مگر یہ درود شریف پڑھنے کے بعد ہے)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : When we prayed with the Prophet (ﷺ) we used to say: As-Salam be on Allah from His worshipers, As-Salam be on Gabriel (ؑ), As-Salam be on Michael, As-Salam be on so-and-so. When the Prophet (ﷺ) finished his prayer, he faced us and said, "Allah Himself is As-Salam (Peace), so when one sits in the prayer, one should say, 'At-Tahiyatu-lillahi Was-Salawatu, Wat-Taiyibatu, As-Salamu 'Alaika aiyuhan-Nabiyyu wa Rah-matul-lahi wa Barakatuhu, As-Salamu 'Alaina wa 'ala 'Ibadillahi assalihin, for if he says so, then it will be for all the pious slave of Allah in the Heavens and the Earth. (Then he should say), 'Ash-hadu an la ilaha illalllahu wa ash-hadu anna Muhammadan 'Abduhu wa rasulu-hu,' and then he can choose whatever speech (i.e. invocation) he wishes " (See Hadith No. 797, Vol. 1)