Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: To propagate As-salam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6235.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا بیمار کی تیمارداری کرنے کا جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینک لینے والے کو جواب دینے کا ناتواں کی مدد کرنے کا، مظلوم کی داد رسی کرنے کا بکثرت سلام کہنے کا اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا، نیزآپ نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں پانی پینے، سونے کی انگوٹھی پہننے، ریشم کی زین پر سوار ہونے، ریشم اور دیبا پہننے، باریک اور موٹا ریشم زیب تن کرنے سے منع فرمایا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں سلام کو عام کرنے کا حکم ہے کیونکہ اس سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص قضائے حاجت میں مصروف ہو تو اسے سلام نہیں کہنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ پیشاب کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث:90) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سلام نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی جہالت کی بنا پر سلام کہہ دے تو اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کہتے تھے کہ بیدار آدمی اسے سن لیتا اور سونے والا اس سے بیدار نہ ہوتا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5362(2055)) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے سلام سے کسی سونے والے کی آنکھ نہ کھل جائے یا اس سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ (3) بہرحال سلام کہنا ایک اسلامی شعار ہے۔ اسے خوب پھیلانا چاہیے اور ایسی کثرت سے رواج دیا جائے کہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی دلربا آواز سے گونج اٹھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سلام کو عام کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان کسی ایسے گھر میں جائے جہاں کوئی بھی نہیں ہے تو اپنے آپ کو سلام کہہ کر اس میں داخل ہو۔ (فتح الباري:25/11) واللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6009
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6235
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6235
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6235
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا بیمار کی تیمارداری کرنے کا جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینک لینے والے کو جواب دینے کا ناتواں کی مدد کرنے کا، مظلوم کی داد رسی کرنے کا بکثرت سلام کہنے کا اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا، نیزآپ نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں پانی پینے، سونے کی انگوٹھی پہننے، ریشم کی زین پر سوار ہونے، ریشم اور دیبا پہننے، باریک اور موٹا ریشم زیب تن کرنے سے منع فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں سلام کو عام کرنے کا حکم ہے کیونکہ اس سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص قضائے حاجت میں مصروف ہو تو اسے سلام نہیں کہنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ پیشاب کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث:90) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سلام نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی جہالت کی بنا پر سلام کہہ دے تو اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کہتے تھے کہ بیدار آدمی اسے سن لیتا اور سونے والا اس سے بیدار نہ ہوتا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5362(2055)) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے سلام سے کسی سونے والے کی آنکھ نہ کھل جائے یا اس سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔ (3) بہرحال سلام کہنا ایک اسلامی شعار ہے۔ اسے خوب پھیلانا چاہیے اور ایسی کثرت سے رواج دیا جائے کہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی دلربا آواز سے گونج اٹھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سلام کو عام کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان کسی ایسے گھر میں جائے جہاں کوئی بھی نہیں ہے تو اپنے آپ کو سلام کہہ کر اس میں داخل ہو۔ (فتح الباري:25/11) واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے اشعث بن ابی الشعثاء نے، ان سے معاویہ بن سوید بن مقرن نے اور ان سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا۔ بیمار کی مزاج پرسی کرنے کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینکنے والے کے جواب دینے کا۔ کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی مدد کرنے کا، افشاء سلام (سلام کا جواب دینے اور بکثرت سلام کرنے) کا قسم (حق) کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا، اور آنحضرت ﷺ نے چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا تھا اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے ہمیں منع فرمایا تھا۔ میثر (ریشم کی زین) پر سوار ہونے سے، ریشم اور دیباج پہننے، قسی (ریشمی کپڑا) اور استبرق پہننے سے (منع فرمایا تھا)۔
حدیث حاشیہ:
یہ سماجی شرعی آداب ہیں جن کا ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) ordered us to do seven (things): to visit the sick, to follow the funeral processions, to say Tashmit to a sneezer, to help the weak, to help the oppressed ones, to propagate As-Salam (greeting), and to help others to fulfill their oaths (if it is not sinful). He forbade us to drink from silver utensils, to wear gold rings, to ride on silken saddles, to wear silk clothes, Dibaj (thick silk cloth), Qassiy and Istabraq (two kinds of silk). (See Hadith No. 539, Vol. 7)