Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: The adultery of the body parts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6243.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بات سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے ملتی جلتی چیز کوئی نہیں دیکھی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نے اس حدیث سے زیادہ چھوٹے گناہوں سے مشابہ کوئی چیز نہیں دیکھی جسے ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے ”اللہ تعالٰی نے ابن آدم پر اس کے زنا کا حصہ رکھا ہے جس سے وہ لا محالہ دو چار ہوگا۔ (وہ یہ ہے کہ) آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور دل اسکی خواہش اور تمنا کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کر دکھاتی ہے یا اسے جھٹلا دیتی ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ''اللَّمَمَ'' کے متعلق سوال ہوا جو قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں آیا ہے: ’’وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں سوائے ان گناہوں کے جو صغیرہ ہیں۔‘‘(النجم53: 32) انہوں نے اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر دی جس میں زنا جیسے بڑے گناہ کی مبادیات (ابتدائی باتوں) کا ذکر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ''لَّمَمَ'' نظر بازی، بات کرنا اور بدکاری کی خواہش کا پیدا ہونا ہے۔ یہ بدکاری کی مبادیات ہیں۔ آخرکار شرمگاہ اس کے ارتکاب کرنے یا چھوڑ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے ازل میں انسان کے لیے جو گناہ لکھ دیا ہے وہ اس سے خلاصی نہیں پا سکتا، البتہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مبادیاتِ زنا کو ''لَّمَمَ'' اور صغیرہ گناہ بنا دیا ہے۔ جب تک شرمگاہ اس کی تصدیق نہ کرے انسان سے اس کے متعلق باز پرس نہ ہو گی اور جب شرمگاہ اس کی تصدیق کر دے تو تمام صغیرہ گناہ اور مبادیات کبیرہ گناہ کی شکل اختیار کر لیں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پر گھروں میں اجازت کے بغیر تاک جھانک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے گزشتہ عنوان کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ (فتح الباري:32/11)واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دل میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انسان نظر بازی اور محبت بھری گفتگو بھی کرتا ہے، اب اگر شرمگاہ نے عملاً زنا کر لیا تو بدکاری کا گناہ لکھا جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے ارتکاب سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہو گئی، اس صورت میں گناہ نہیں لکھا جائے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6017
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6243
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6243
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6243
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
زنا صرف شرمگاہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بدکار انسان کا ایک ایک عضو بے حیائی اور بدکاری کا مرتکب ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بات سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے ملتی جلتی چیز کوئی نہیں دیکھی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نے اس حدیث سے زیادہ چھوٹے گناہوں سے مشابہ کوئی چیز نہیں دیکھی جسے ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے ”اللہ تعالٰی نے ابن آدم پر اس کے زنا کا حصہ رکھا ہے جس سے وہ لا محالہ دو چار ہوگا۔ (وہ یہ ہے کہ) آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور دل اسکی خواہش اور تمنا کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کر دکھاتی ہے یا اسے جھٹلا دیتی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ''اللَّمَمَ'' کے متعلق سوال ہوا جو قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں آیا ہے: ’’وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں سوائے ان گناہوں کے جو صغیرہ ہیں۔‘‘(النجم53: 32) انہوں نے اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر دی جس میں زنا جیسے بڑے گناہ کی مبادیات (ابتدائی باتوں) کا ذکر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ''لَّمَمَ'' نظر بازی، بات کرنا اور بدکاری کی خواہش کا پیدا ہونا ہے۔ یہ بدکاری کی مبادیات ہیں۔ آخرکار شرمگاہ اس کے ارتکاب کرنے یا چھوڑ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے ازل میں انسان کے لیے جو گناہ لکھ دیا ہے وہ اس سے خلاصی نہیں پا سکتا، البتہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مبادیاتِ زنا کو ''لَّمَمَ'' اور صغیرہ گناہ بنا دیا ہے۔ جب تک شرمگاہ اس کی تصدیق نہ کرے انسان سے اس کے متعلق باز پرس نہ ہو گی اور جب شرمگاہ اس کی تصدیق کر دے تو تمام صغیرہ گناہ اور مبادیات کبیرہ گناہ کی شکل اختیار کر لیں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پر گھروں میں اجازت کے بغیر تاک جھانک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے گزشتہ عنوان کے ساتھ مناسبت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ (فتح الباري:32/11)واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دل میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انسان نظر بازی اور محبت بھری گفتگو بھی کرتا ہے، اب اگر شرمگاہ نے عملاً زنا کر لیا تو بدکاری کا گناہ لکھا جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے ارتکاب سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہو گئی، اس صورت میں گناہ نہیں لکھا جائے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ابو ہریرہ ؓ کی حدیث سے زیادہ صغیرہ گناہوں سے مشابہ میں نے اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ (حضرت ابو ہریرہ ؓ نے جو باتیں بیان کی ہیں وہ مراد ہیں) مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہمیں عبد الرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ابن طاؤس نے ، انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس ؓمانے کہ میں نے کوئی چیز صغیرہ گناہوں سے مشابہ اس حدیث کے مقابلہ میں نہیں دیکھی جسے ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے معاملہ میں زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے جس سے وہ لا محالہ دوچار ہوگا پس آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، دل کا زنا یہ ہے کہ وہ خواہش اور آرزو کرتا ہے پھر شرمگاہ اس خواہش کو سچا کرتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ نفس میں زنا کی خواہش پیدا ہوتی ہے اب اگر شرمگاہ سے زنا کیا تو زنا کا گناہ لکھا گیا اور اگر خدا کے ڈر سے زنا سے باز رہا تو خواہش غلط اور جھوٹ ہوگئی اس صورت میں معافی ہو جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : I have not seen a thing resembling 'lamam' (minor sins) than what Abu Hurairah (RA) 'narrated from the Prophet (ﷺ) who said "Allah has written for Adam's son his share of adultery which he commits inevitably. The adultery of the eyes is the sight (to gaze at a forbidden thing), the adultery of the tongue is the talk, and the inner self wishes and desires and the private parts testify all this or deny it."