باب: جس نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے ایسے شخص کامکتوب پکڑ لیا جس میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بات لکھی گئی ہوتو یہ جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: The one who looks at a letter in order to know its written contents)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6259.
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت ابو مرثد غنویٰ ؓ کو بھیجا۔ ہم تینوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم جاؤ اور روضہ خاخ پہنچو وہاں تمہیں ایک مشرکہ عورت ملے گی۔ اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو انہوں نے مشرکین کے نام لکھا ہے۔“ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے وہاں ایک عورت کو پا لیا جو اپنے اونٹ پر سوار ہوکر جا رہی تھی وہ ہمیں اسی مقام پر ملی جہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ہم نے اس سے کہا: جو خط تم اپنے ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوے میں اسے تلاش کرنا شروع کر دیا لیکن تلاش بسیار کے باوجود وہ دستیاب نہ ہو سکا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں تو کوئی خط وغیرہ نظر نہیں آیا۔ میں نے کہا مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غلط بات نہیں کہی۔ اس ذات کی قسم جس کے نام پر قسم اٹھائی جاتی ہے تم خط نکالو بصورت دیگر ہم تجھے ننگا کر کے خط برآمد کریں گے جب اس عورت نے دیکھا کہ میں اپنے ہاتھ بڑھایا جبکہ وہ چادر باندھے ہوئے تھی اور خط نکال کر دیے دیا۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا: ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کی: میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں، میرے اندر کوئی تغیر وتبدیلی نہیں آئی۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ میرا اہل مکہ پر کچھ احسان ہو جائے تاکہ اس کے سبب اللہ تعالٰی میرے اہل وعیال اور مال ومتاع کی نگرانی فرمائے آپ کے جتنے اصحاب ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے زریعے سے اللہ تعالٰی ان کے مال اوراہل وعیال کی حفاظت فرماتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا ہے اب تم لوگ اس کے متعلق بھلائی اور خیر سگالی کے علاوہ کچھ نہ کہو۔“ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اس شخص نے اللہ اس کے رسول اور اہل ایمان سے خیانت کی ہے آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: اے عمر! تمہیں کیا معلوم یقیناً اللہ تعالٰی اہل بدر کی زندگی پر مطلع تھا اس کے باوجود اس نے کہا: تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔
تشریح:
(1) حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی صاف گوئی نے سارا معاملہ ہی صاف کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اہم دلیل پیش کر کے حضرت عمر اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو مطمئن کر دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ کسی کا خط بلا اجازت پڑھنا بہت بڑی خیانت ہے لیکن اگر کسی خط میں مسلمانوں کی غیبت ہو یا ان کے خلاف سازش کی گئی ہو تو ایسا خط بلا اجازت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسے حالات میں خط اور خط والے کا کوئی احترام نہیں۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دشمن کی عورت کو کسی اہم ضرورت کے پیش نظر برہنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6033
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6259
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6259
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6259
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
کسی کا خط اجازت کے بغیر پڑھنا،گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونے کے مترادف ہے،اس لیے کسی کے خط کو اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا شرعاًجائز نہیں۔اس سلسلے میں ایک حدیث بھی مروی ہے اگرچہ وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے،تاہم اس کے معنی صحیح ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے بھائی کے مکتوب میں بلا اجازت نظر ڈالتا ہے وہ آگ میں نظر ڈالتا۔"(سنن ابی داود، الوتر، حدیث:1485) امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک استثنائی صورت بیان کی ہے کہ اگر کوئی مصلحت کسی کے خط کو بلا اجازت دیکھنے سے وابستہ ہے تو ایسے خط کو اجازت کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے لیکن بلاوجہ اس قسم کی عادت اختیار کرنا قطعاً مستحسن نہیں۔اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث میں ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر بن عوام اور حضرت ابو مرثد غنویٰ ؓ کو بھیجا۔ ہم تینوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ آپ نے فرمایا: ”تم جاؤ اور روضہ خاخ پہنچو وہاں تمہیں ایک مشرکہ عورت ملے گی۔ اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو انہوں نے مشرکین کے نام لکھا ہے۔“ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے وہاں ایک عورت کو پا لیا جو اپنے اونٹ پر سوار ہوکر جا رہی تھی وہ ہمیں اسی مقام پر ملی جہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ہم نے اس سے کہا: جو خط تم اپنے ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوے میں اسے تلاش کرنا شروع کر دیا لیکن تلاش بسیار کے باوجود وہ دستیاب نہ ہو سکا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں تو کوئی خط وغیرہ نظر نہیں آیا۔ میں نے کہا مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غلط بات نہیں کہی۔ اس ذات کی قسم جس کے نام پر قسم اٹھائی جاتی ہے تم خط نکالو بصورت دیگر ہم تجھے ننگا کر کے خط برآمد کریں گے جب اس عورت نے دیکھا کہ میں اپنے ہاتھ بڑھایا جبکہ وہ چادر باندھے ہوئے تھی اور خط نکال کر دیے دیا۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کہا: ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کی: میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہوں، میرے اندر کوئی تغیر وتبدیلی نہیں آئی۔ میرا مقصد صرف یہ تھا کہ میرا اہل مکہ پر کچھ احسان ہو جائے تاکہ اس کے سبب اللہ تعالٰی میرے اہل وعیال اور مال ومتاع کی نگرانی فرمائے آپ کے جتنے اصحاب ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے زریعے سے اللہ تعالٰی ان کے مال اوراہل وعیال کی حفاظت فرماتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا ہے اب تم لوگ اس کے متعلق بھلائی اور خیر سگالی کے علاوہ کچھ نہ کہو۔“ یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اس شخص نے اللہ اس کے رسول اور اہل ایمان سے خیانت کی ہے آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: اے عمر! تمہیں کیا معلوم یقیناً اللہ تعالٰی اہل بدر کی زندگی پر مطلع تھا اس کے باوجود اس نے کہا: تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی صاف گوئی نے سارا معاملہ ہی صاف کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اہم دلیل پیش کر کے حضرت عمر اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو مطمئن کر دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ کسی کا خط بلا اجازت پڑھنا بہت بڑی خیانت ہے لیکن اگر کسی خط میں مسلمانوں کی غیبت ہو یا ان کے خلاف سازش کی گئی ہو تو ایسا خط بلا اجازت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسے حالات میں خط اور خط والے کا کوئی احترام نہیں۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دشمن کی عورت کو کسی اہم ضرورت کے پیش نظر برہنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یوسف بن بہلول نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حصین بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابو عبد الرحمن سلمی نے اور ان سے حضرت علی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے زبیر بن عوام اور ابو مرثد غنوی کو بھیجا۔ ہم سب گھوڑ سوار تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور جب ”روضہ خاخ“ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین کے پاس بھیجا گیا ہے (اسے لے آؤ) بیان کیا کہ ہم نے اس عورت کو پالیا وہ اپنے اونٹ پر جا رہی تھی اور وہیں پر ملی (جہاں) آنحضرت ﷺ نے بتایا تھا۔ بیان کیا کہ ہم نے اس سے کہا کہ خط جو تم ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوہ میں تلاشی لی لیکن ہمیں کوئی چیز نہیں ملی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کوئی خط تو نظر آتا نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے کہا، مجھے یقین ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے غلط بات نہیں کہی ہے۔ قسم ہے اس کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے، تم خط نکالو ورنہ میں تمہیں ننگا کر دوںگا۔ بیان کیا کہ جب اس عورت نے دیکھا کہ میں واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہوں تو اس نے ازار باندھنے کی جگہ کی طرف ہاتھ بڑھایا، وہ ایک چادر ازار کے طور پر باندھے ہوئے تھی اور خط نکالا۔ بیان کیا کہ ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا، حاطب تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول پرایمان رکھتا ہوں۔ میرے اندر کوئی تغیر وتبدیلی نہیں آئی ہے، میرا مقصد (خط بھیجنے سے) صرف یہ تھا کہ (قریش پر آپ کی فوج کشی کی اطلاع دوں اور اس طرح) میرا ان لوگوں پر احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے اللہ میرے اہل اور مال کی طرف سے (ان سے) مدافعت کرائے۔ آپ کے جتنے مہاجر صحابہ ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد ہیں جن کے ذریعہ اللہ ان کے مال اور ان کے گھروالوں کی حفاظت کرائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا انہوں نے سچ کہ دیا ہے اب تم لوگ ان کے بارے میں سوا بھلائی کے اور کچھ نہ کہو بیان کیا کہ اس پر عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عمر! تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالی بدر کی لڑائی میں شریک صحابہ کی زندگی پر مطلع تھا اور اس کے باوجود کہا کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لئے جنت لکھ دی گئی ہے، بیان کیا کہ اس پر عمر ؓ کی آنکھیں اشک آلود ہوگئیں اور عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی صاف گوئی نے سارا معاملہ صاف کر دیا اور حدیث (إِنمَّا الأَعمَالُ بِالنِّیاتِ) کے تحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو شرف معافی عطا فرما کر اور ایک اہم ترین دلیل پیش فرما کر حضرت عمررضی اللہ عنہ اور دیگر اجل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو مطمئن فرما دیا اس سے ظاہر ہوا کہ مفتی صاحب جب تک کسی معاملہ کے ہر پہلو پر گہری نظر نہ ڈال لے اس کو فتوی لکھنا مناسب نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) sent me, Az-Zubair bin Al-Awwam and Abu Marthad Al-Ghanawi, and all of us were horsemen, and he said, "Proceed till you reach Rawdat Khakh, where there is a woman from the pagans carrying a letter sent by Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Makkah)." So we overtook her while she was proceeding on her camel at the same place as Allah's Apostle (ﷺ) told us. We said (to her) "Where is the letter which is with you?" She said, "I have no letter with me." So we made her camel kneel down and searched her mount (baggage etc) but could not find anything. My two companions said, "We do not see any letter." I said, "I know that Allah's Apostle (ﷺ) did not tell a lie. By Allah, if you (the lady) do not bring out the letter, I will strip you of your clothes' When she noticed that I was serious, she put her hand into the knot of her waist sheet, for she was tying a sheet round herself, and brought out the letter. So we proceeded to Allah's Apostle (ﷺ) with the letter. The Prophet (ﷺ) said (to Habib), "What made you o what you have done, O Hatib?" Hatib replied, "I have done nothing except that I believe in Allah and His Apostle, and I have not changed or altered (my religion). But I wanted to do the favor to the people (pagans of Makkah) through which Allah might protect my family and my property, as there is none among your companions but has someone in Makkah through whom Allah protects his property (against harm). The Prophet (ﷺ) said, "Habib has told you the truth, so do not say to him (anything) but good." 'Umar bin Al-Khattab (RA) said, "Verily he has betrayed Allah, His Apostle, and the believers! Allow me to chop his neck off!" The Prophet (ﷺ) said, "O 'Umar! What do you know; perhaps Allah looked upon the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, for I have ordained that you will be in Paradise.'" On that 'Umar wept and said, "Allah and His Apostle (ﷺ) know best."