Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Whose name is to be written first in a letter)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6261.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ اس نے ایک لکڑی لے کر اسے کریدا، پھر اس میں ایک ہزار دینار رکھے اور اپنے قرض خواہ کے نام ایک خط لکھ کر بھی رکھ دیا ایک دوسری روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اس نے ایک لکڑی میں سوراخ کیا پھر اس کے اندر مال رکھ دیا اور ایک خط بھی لکھ کر اس میں رکھ دیا کہ یہ فلاں کی طرف سے فلاں کو ملے۔
تشریح:
(1)امام بخاری رحمہ اللہ کا محل استدلال یہ لفظ ہے: "من فلان إلى فلان'' یعنی خط کا آغاز لکھنے والے کے نام سے ہو، پھر مکتوب الیہ جس کو خط لکھا گیا ہو کا نام لکھا جائے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو العلاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا تو انھوں نے اپنے نام سے خط کا آغاز کیا۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5135) (2) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے اس کے برعکس بھی ثابت ہے، چنانچہ وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھتے تو آغاز سیدنا امیر رضی اللہ عنہ سے کرتے: "لعبد الله معاوية أمير المؤمنين من زيد بن ثابت''(الأدب المفرد، حدیث:1122) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب عبدالملک کو خط لکھتے تو درج ذیل انداز اختیار کرتے: "بسم الله الرحمٰن الرحيم لعبد الملك أمير المؤمنين من عبدالله بن عمر۔'' (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ خط لکھتے وقت انسان کو اپنے نام سے شروع کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:58/11) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ خطوط میں یہی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6035
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6261
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6261
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6261
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
خط لکھتے وقت کس کا نام پہلے لکھا جائے،لکھنے والے کا یا مکتوب الیہ کا؟مسنون یہ ہے کہ لکھنے والے کا نام پہلے اور مکتوب الیہ کا نام بعد میں لکھا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہانِ عجم کے نام خط لکھتے وقت یہ اسلوب اختیار کیا تھا: "من محمد عبدالله ورسوله الي هرقل عظيم الروم،“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ اس نے ایک لکڑی لے کر اسے کریدا، پھر اس میں ایک ہزار دینار رکھے اور اپنے قرض خواہ کے نام ایک خط لکھ کر بھی رکھ دیا ایک دوسری روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اس نے ایک لکڑی میں سوراخ کیا پھر اس کے اندر مال رکھ دیا اور ایک خط بھی لکھ کر اس میں رکھ دیا کہ یہ فلاں کی طرف سے فلاں کو ملے۔
حدیث حاشیہ:
(1)امام بخاری رحمہ اللہ کا محل استدلال یہ لفظ ہے: "من فلان إلى فلان'' یعنی خط کا آغاز لکھنے والے کے نام سے ہو، پھر مکتوب الیہ جس کو خط لکھا گیا ہو کا نام لکھا جائے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو العلاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا تو انھوں نے اپنے نام سے خط کا آغاز کیا۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5135) (2) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے اس کے برعکس بھی ثابت ہے، چنانچہ وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھتے تو آغاز سیدنا امیر رضی اللہ عنہ سے کرتے: "لعبد الله معاوية أمير المؤمنين من زيد بن ثابت''(الأدب المفرد، حدیث:1122) اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب عبدالملک کو خط لکھتے تو درج ذیل انداز اختیار کرتے: "بسم الله الرحمٰن الرحيم لعبد الملك أمير المؤمنين من عبدالله بن عمر۔'' (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ خط لکھتے وقت انسان کو اپنے نام سے شروع کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:58/11) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ خطوط میں یہی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیع نے بیان کیا ان سے عبد الرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہ آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا کہ انہوں نے لکڑی کا ایک لٹھا لیا اور اس میں سوراخ کر کے ایک ہزار دینار اور خط رکھ دیا وہ ان کی طرف سے ان کے ساتھی (قرض خواہ کی طرف تھا اور عمر بن ابی سلمہ نے بیان کیا کہ ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے لکڑی کے ایک لٹھے میں سوراخ کیا اور مال اس کے اندر رکھ دیا اور ان کے پاس ایک خط لکھا، فلاں کی طرف سے فلاں کو ملے۔
حدیث حاشیہ:
چونکہ قرض دار انتہائی امانت دار اور وعدہ وفا مومن تھا اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور امانت اور مکتوب پر دو قرض خواہ کو بخیریت وصول ہوگئے ایسے مردان حق آج عنقاہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔ جعلنا اللہ منھم آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Allah's Messenger (ﷺ) mentioned a person from Bani Israel who took a piece of wood, made a hole in it, and put therein one thousand Dinar and letter from him to his friend. The Prophet (ﷺ) said, "(That man) cut a piece of wood and put the money inside it and wrote a letter from such and such a person to such and such a person."