مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تشریح : لفظ مصافحہ صفح سے ہے جس کے معنی ہتھیلی کے ہیں پس ایک آدمی کا سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے آدمی کے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی سے ملانا مصافحہ کہلاتا ہے جو مسنون ہے یہ ہر دو جانب سے سیدھے ہاتھوں کے ملانے سے ہوتا ہے بایاں ہاتھ ملانے کایہاں کوئی محل نہیں ہے جو لوگ دایاں اور بایاں دونوں ہاتھ ملاتے ہیں ان کو لفظ مصافحہ کی حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے مزید تفصیل آگے ملاحظہ ہو۔حدیث نمبر : 1وقال ابن مسعود علمني النبي صلى الله عليه وسلم التشهد، وكفي بين كفيه. وقال كعب بن مالك دخلت المسجد، فإذا برسول الله ﷺ فقام إلى طلحة بن عبيد الله يهرول، حتى صافحني وهنأني.حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺنے تشہد سکھلایا تو میری دونوں ہتھیلیاں آنحضرتﷺ کی ہتھیلیوں کے درمیان تھیں اور کعب بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں رسول اللہ ﷺتشریف رکھتے تھے طلحہ بن عبید اللہ اٹھ کر بڑی تیزی سے میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور ( توبہ قبول ہونے پر ) مجھے مبارک باد دی ۔
6264.
حضرت عبد اللہ بن ہشام ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ تھے جبکہ آپ ﷺ حضرت عمر بن خطاب ؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر اس حدیث کو مفصل طور پر بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث:6632) اہل لغت نے مصافحہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: مصافحہ، باب مفاعلہ سے ہے۔ اس سے مراد ہتھیلی کا اندرونی حصہ دوسرے کی ہتھیلی کے اندرونی حصے سے ملانا ہے۔ (النھایة:43/3) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی صورت سامنے آتی ہے کیونکہ جب ہاتھ پکڑا جاتا ہے تو ایک ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے کی ہتھیلی سے مل جاتی ہے۔ (فتح الباري:67/11) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو پکڑنا مصافحہ ہی کی ایک صورت ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مصافحہ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں ایک، اپنے دوسرے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ ان کی دعاؤں پر توجہ دے اور ان کے ہاتھ الگ الگ ہونے سے پہلے پہلے انھیں معاف کردے۔‘‘ (مسند أحمد:142/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6038
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6264
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6264
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6264
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
ملاقات کے وقت محبت اور احترام کے اظہار کے لیے سلام کے علاوہ مصافحہ بھی مسنون ہے جو عموماً سلام کے ساتھ اور اس کے بعد ہوتا ہے اور اس سے سلام کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے:سلام کی تکمیل مصافحہ کرنے سے ہوتی ہے۔(الادب المفرد، حدیث:968) کچھ اہل علم سے مصافحہ کرنے کی کراہت منقول ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اس کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔محدثین کے ہاں پڑھنے کے وقت وقار واحترام کے جذبات سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا بھی مصافحے کی ایک صورت ہے،اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی ہے۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری، المغازی، حدیث:4418) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مصافحہ کا عمل ثابت ہے۔(سنن ابی داود، الادب، حدیث:5214)
تشریح : لفظ مصافحہ صفح سے ہے جس کے معنی ہتھیلی کے ہیں پس ایک آدمی کا سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے آدمی کے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی سے ملانا مصافحہ کہلاتا ہے جو مسنون ہے یہ ہر دو جانب سے سیدھے ہاتھوں کے ملانے سے ہوتا ہے بایاں ہاتھ ملانے کایہاں کوئی محل نہیں ہے جو لوگ دایاں اور بایاں دونوں ہاتھ ملاتے ہیں ان کو لفظ مصافحہ کی حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے مزید تفصیل آگے ملاحظہ ہو۔حدیث نمبر : 1وقال ابن مسعود علمني النبي صلى الله عليه وسلم التشهد، وكفي بين كفيه. وقال كعب بن مالك دخلت المسجد، فإذا برسول الله ﷺ فقام إلى طلحة بن عبيد الله يهرول، حتى صافحني وهنأني.حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺنے تشہد سکھلایا تو میری دونوں ہتھیلیاں آنحضرتﷺ کی ہتھیلیوں کے درمیان تھیں اور کعب بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں رسول اللہ ﷺتشریف رکھتے تھے طلحہ بن عبید اللہ اٹھ کر بڑی تیزی سے میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور ( توبہ قبول ہونے پر ) مجھے مبارک باد دی ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن ہشام ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ تھے جبکہ آپ ﷺ حضرت عمر بن خطاب ؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر اس حدیث کو مفصل طور پر بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث:6632) اہل لغت نے مصافحہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: مصافحہ، باب مفاعلہ سے ہے۔ اس سے مراد ہتھیلی کا اندرونی حصہ دوسرے کی ہتھیلی کے اندرونی حصے سے ملانا ہے۔ (النھایة:43/3) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی صورت سامنے آتی ہے کیونکہ جب ہاتھ پکڑا جاتا ہے تو ایک ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے کی ہتھیلی سے مل جاتی ہے۔ (فتح الباري:67/11) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو پکڑنا مصافحہ ہی کی ایک صورت ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مصافحہ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں ایک، اپنے دوسرے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ ان کی دعاؤں پر توجہ دے اور ان کے ہاتھ الگ الگ ہونے سے پہلے پہلے انھیں معاف کردے۔‘‘ (مسند أحمد:142/3)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے مجھے تشہد کی تعلیم دی جبکہ میری ہتھیلی آپ ﷺ کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی۔ حضرت کعب بن مالک ؓ نے کہا: میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺوہاں تشریف فرما تھے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ میرے پاس دوڑتے ہوئے آئے انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباددی
فائدہ: کچھ اہل علم سے مصافحہ کرنے کی کراہت منقول ہے اس لیے امام بخاری نے ان کی تردید کرتے ہوئے اس کی مشروعیت بیان کی ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حیوہ نے خبر دیِ، کہا کہ مجھ سے ابو عقیل زہرہ بن معبد نے بیان کیا، انہوں نے اپنے دادا عبد اللہ بن ہشام ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آنحضرت ﷺ عمر بن خطا ب ؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Hisham (RA) : We were in the company of the Prophet (ﷺ) and he was holding the hand of 'Umar bin Al-Khattab (RA).