باب: کوئی بلائے تو جواب میں لفظ لبیک ( حاضر ) اور سعدیک ( آپ کی خدمت کے لئے مستعد ) کہنا
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Whoever replies saying, "Labbaik wa Sa'daik")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6268.
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں عشاء کے وقت نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے میدان میں چل رہا تھا کہ اچانک احد پہاڑ دکھائی دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابو زر! میں نہیں چاہتا کہ احد پہاڑ کے برابر ميرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات یا تین راتیں اس طرح گزر جائیں کہ اس میں اسے ایک دینار بھی میرے پاس باقی رہ جائے مگر وہ جو قرض ادا کرنے کے لیے محفوظ رکھوں، میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں۔“ ابو ذر ؓ نے اس کی کیفیت اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر بیان کی۔ پھر آپ نے فرمایا: تم یہاں ہی رہو حتیٰ کہ مجھ سے غائب ہو گئے اس کے بعد میں نے ایک آواز سنی: مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی پریشانی نہ پیش آگئی ہو، اس لیے میں وہاں سے جانا چاہا لیکن مجھے فوراً آپ کی بات یاد آگئی کہ ”تم نے یہاں سے نہیں جانا“ چنانچہ میں وہیں رک گیا۔ (جب آپ تشریف لائے تو) میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے ایک آواز سنی تو مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہو پھر مجھے آپ کا حکم یاد آگیا تو میں رک گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے جو میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ”اگرچہ وہ زنا اور چوری کا مرتکب ہو، آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ زنا اور چوری کا مرتکب ہو۔“ (اعمش نے کہا کہ) میں نے زید بن وہب سے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے اس حدیث کے راوی حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ہیں انہوں (زید بن وہب) نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ مجھ سے یہ حدیث مقام ربذہ میں حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ نے بیان کی تھی۔ اعمش نے کہا: مجھے ابو صالح نے حضرت ابو درداء ؓ نے اسی طرح حدیث بیان کی تھی ابو شہاب نے اعمش سے یہ الفاظ مزید بیان کیے: ”(اگر سونا احد پہاڑ کے برابر بھی ہو تو یہ پسند نہیں کروں گا کہ) میرے پاس تین دن سے زیادہ رہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں ایک اصولی بات بیان ہوئی ہے کہ جو شخص خالص توحید اختیار کرنے والا ہو اور شرک سے کنارہ کشی کرتے ہوئے فوت ہو جائے وہ کسی بھی کبیرہ کی وجہ سے دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ توحید کی برکت سے اس کے تمام گناہ معاف کر دے اور دوزخ میں جانے کے بغیر ہی اسے جنت میں داخل کر دے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ کلمۂ "لبیک" تعبدی ہے مگر جب کوئی صاحب فضل بلائے تو انسان یہ لفظ جواب میں بول سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے پر استعمال کیا تھا۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے بلانے پر"لبيك وسعديك" کے الفاظ بولے تھے۔(سنن النسائي الکبریٰ:254/6، رقم:10864، وفتح الباري: 74/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6043
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6268
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6268
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6268
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
کسی شخص كے بلانے پر لبيك اورسعديك كے الفاظ کہنا جائز ہے۔ان کے معانی ہیں: میں خدمت کے لیے حاضر ومستعد ہوں اور اسے اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں۔
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں عشاء کے وقت نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے میدان میں چل رہا تھا کہ اچانک احد پہاڑ دکھائی دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابو زر! میں نہیں چاہتا کہ احد پہاڑ کے برابر ميرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات یا تین راتیں اس طرح گزر جائیں کہ اس میں اسے ایک دینار بھی میرے پاس باقی رہ جائے مگر وہ جو قرض ادا کرنے کے لیے محفوظ رکھوں، میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں۔“ ابو ذر ؓ نے اس کی کیفیت اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر بیان کی۔ پھر آپ نے فرمایا: تم یہاں ہی رہو حتیٰ کہ مجھ سے غائب ہو گئے اس کے بعد میں نے ایک آواز سنی: مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی پریشانی نہ پیش آگئی ہو، اس لیے میں وہاں سے جانا چاہا لیکن مجھے فوراً آپ کی بات یاد آگئی کہ ”تم نے یہاں سے نہیں جانا“ چنانچہ میں وہیں رک گیا۔ (جب آپ تشریف لائے تو) میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں نے ایک آواز سنی تو مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہو پھر مجھے آپ کا حکم یاد آگیا تو میں رک گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے جو میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ”اگرچہ وہ زنا اور چوری کا مرتکب ہو، آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ زنا اور چوری کا مرتکب ہو۔“ (اعمش نے کہا کہ) میں نے زید بن وہب سے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے اس حدیث کے راوی حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ہیں انہوں (زید بن وہب) نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ مجھ سے یہ حدیث مقام ربذہ میں حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ نے بیان کی تھی۔ اعمش نے کہا: مجھے ابو صالح نے حضرت ابو درداء ؓ نے اسی طرح حدیث بیان کی تھی ابو شہاب نے اعمش سے یہ الفاظ مزید بیان کیے: ”(اگر سونا احد پہاڑ کے برابر بھی ہو تو یہ پسند نہیں کروں گا کہ) میرے پاس تین دن سے زیادہ رہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ایک اصولی بات بیان ہوئی ہے کہ جو شخص خالص توحید اختیار کرنے والا ہو اور شرک سے کنارہ کشی کرتے ہوئے فوت ہو جائے وہ کسی بھی کبیرہ کی وجہ سے دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ توحید کی برکت سے اس کے تمام گناہ معاف کر دے اور دوزخ میں جانے کے بغیر ہی اسے جنت میں داخل کر دے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ کلمۂ "لبیک" تعبدی ہے مگر جب کوئی صاحب فضل بلائے تو انسان یہ لفظ جواب میں بول سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے پر استعمال کیا تھا۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے بلانے پر"لبيك وسعديك" کے الفاظ بولے تھے۔(سنن النسائي الکبریٰ:254/6، رقم:10864، وفتح الباري: 74/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا (کہا کہ) واللہ ہم سے ابوذر ؓ نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین پر چل رہا تھا کہ احد پہاڑ دکھائی دیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے ابوذر! مجھے پسند نہیں کہ اگر احد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات بھی اس طرح گذر جائے یا تین رات کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی بچے۔ سوائے اس کے جو میں قرض کی ادائيگی کے لئے محفوظ رکھ لوں میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں گا۔ ابو ذر ؓ نے اس کی کیفیت ہمیں اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر دکھائی پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے ابو ذر! میں نے عرض کیا لبیك وسعدیك یا رسول اللہ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا زیادہ جمع کرنے والے ہی (ثواب کی حیثیت سے) کم حاصل کرنے والے ہوں گے۔ سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں پر مال اس اس طرح یعنی کثرت کے ساتھ خرچ کرے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو ابو ذر! یہاں سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں واپس نہ آ جاؤں۔ پھرآنحضرت ﷺ تشریف لے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں حضور اکرم ﷺ کو کوئی پریشانی نہ پیش آگئی ہو۔ اس لئے میں نے (آنحضرت ﷺ کو دیکھنے کے لئے) جانا چاہا لیکن فوراً ہی آنحضور ﷺ کا یہ ارشاد یاد آیا کہ یہاں سے نہ ہٹنا۔ چنانچہ میں وہیں رک گیا (جب آپ تشریف لائے تو) میں نے عرض کی۔ میں نے آواز سنی تھی اور مجھے خطرہ ہوگیا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی پریشانی نہ پیش آجائے پھر مجھے آپ کا ارشاد یاد آیا اس لئے میں یہیں ٹھہر گیا۔ آنحضر ت ﷺ نے فرمایا یہ جبریل ؑ تھے۔ میرے پاس آئے تھے اورمجھے خبر دی ہے کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو۔ (اعمش نے بیان کیا کہ) میں نے زید بن وہب سے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس حدیث کے راوی ابو درداءؓ ہیں؟ حضرت زید نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث مجھ سے ابو ذرؓ نے مقام ربذہ میں بیان کی تھی۔ اعمش نے بیان کیا کہ مجھ سے ابو صالح نے حدیث بیان کی اور ان سے ابو الدرداءؓ نے اسی طرح بیان کیا اور ابو شہاب نے اعمش سے بیان کیا۔ حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث میں یہ لفظ اور بیان کئے کہ اگر سونا احد پہاڑ کے برابر بھی ہو تو میں یہ پسند نہیں کروںگا میرے پاس تین دن سے زیادہ رہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں کئی ایک اصولی باتیں مذکور ہیں مثلا ً جو شخص خالص توحید والا شرک سے بچنے والا ہے وہ کسی بھی کبیرہ گناہ کی وجہ سے دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ پاک توحید کی برکت سے اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دے۔ حدیث کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا طرز عمل مذکور ہے جو ہمیشہ اہل دنیا کے لئے مشعل راہ رہے گا آپ دنیا میں اولین انسان ہیں جنہوں نے سرمایہ داری و دولت پرستی پر اپنے قول وعمل سے ایسی ضرب لگائی کہ آ ج ساری دنیا اسی ڈگر پر چل پڑی ہے جیسا کہ اقبال مرحوم نے کہا ہے: گيا دور سرمايہ داری گیا دکھا کر تماشہ مداری گیا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA): While I was walking with the Prophet (ﷺ) at the Hurra of Madinah in the evening, the mountain of Uhud appeared before us. The Prophet (ﷺ) said, "O Abu Dhar! I would not like to have gold equal to Uhud (mountain) for me, unless nothing of it, not even a single Dinar remains of it with me, for more than one day or three days, except that single Dinar which I will keep for repaying debts. I will spend all of it (the whole amount) among Allah's slaves like this and like this and like this." The Prophet (ﷺ) pointed out with his hand to illustrate it and then said, "O Abu Dhar!" I replied, "Labbaik wa Sa'daik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Those who have much wealth (in this world) will be the least rewarded (in the Hereafter) except those who do like this and like this (i.e., spend their money in charity)." Then he ordered me, "Remain at your place and do not leave it, O Abu Dhar, till I come back." He went away till he disappeared from me. Then I heard a voice and feared that something might have happened to Allah's Apostle, and I intended to go (to find out) but I remembered the statement of Allah's Apostle (ﷺ) that I should not leave, my place, so I kept on waiting (and after a while the Prophet (ﷺ) came), and I said to him, "O Allah's Apostle, I heard a voice and I was afraid that something might have happened to you, but then I remembered your statement and stayed (there). The Prophet (ﷺ) said, "That was Gabriel (ؑ) who came to me and informed me that whoever among my followers died without joining others in worship with Allah, would enter Paradise." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Even if he had committed illegal sexual intercourse and theft?" He said, "Even if he had committed illegal sexual intercourse and theft '