Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: The bed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6276.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ چار پائی یا تخت کے درمیان میں نماز پڑھتے تھے جبکہ میں آپ کے اور قبیلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو میں یہ پسند نہ کرتی کہ میں کھڑی ہوں اور آپ کے سامنے آؤں اس لیے میں آہستہ سے سرک جاتی تھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھر میں تخت رکھنا اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا اپنے شوہر کی موجودگی میں لیٹنا جائز ہے، اس کے علاوہ یہ بھی پتا چلا کہ عورت کا قبلے رخ میں لیٹنا آدمی کی نماز کو باطل نہیں کرتا۔ واللہ أعلم (2) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹنے کے دومختلف واقعات ہیں، ایک تو یہی واقعہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تھے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاؤں کو ہاتھ لگاتے تو وہ اپنے پاؤں سمیٹ لیتیں۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:382) اور دوسرا واقعہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جنازہ کی طرح آپ سامنے لیٹی ہوتیں، اس صورت میں پاؤں سمیٹنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:383)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6051
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6276
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6276
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6276
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
مذکورہ اور زیل کے عنوانات کو کتاب الا ستذان میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ الاستذان سے مقصود گھر میں داخل ہونا ہے لہذا اس مناسبت سے گھر کے متعلقات کو بیان کیا جارہا ہے
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ چار پائی یا تخت کے درمیان میں نماز پڑھتے تھے جبکہ میں آپ کے اور قبیلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو میں یہ پسند نہ کرتی کہ میں کھڑی ہوں اور آپ کے سامنے آؤں اس لیے میں آہستہ سے سرک جاتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھر میں تخت رکھنا اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا اپنے شوہر کی موجودگی میں لیٹنا جائز ہے، اس کے علاوہ یہ بھی پتا چلا کہ عورت کا قبلے رخ میں لیٹنا آدمی کی نماز کو باطل نہیں کرتا۔ واللہ أعلم (2) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹنے کے دومختلف واقعات ہیں، ایک تو یہی واقعہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تھے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاؤں کو ہاتھ لگاتے تو وہ اپنے پاؤں سمیٹ لیتیں۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:382) اور دوسرا واقعہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جنازہ کی طرح آپ سامنے لیٹی ہوتیں، اس صورت میں پاؤں سمیٹنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:383)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو الضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ تخت کے وسط میں نماز پڑھتے تھے اور میں آنحضرت ﷺ اور قبلہ کے درميان لیٹی رہتی تھی مجھے کوئی ضرورت ہوتی لیکن مجھ کو کھڑے ہو کرآپ کے سامنے آنا برا معلوم ہوتا۔ البتہ آپ کی طرف رخ کر کے میں آہستہ سے کھسک جاتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
قبلہ رخ میں عورت کا لیٹنا مصلی کی نماز کو باطل نہیں کرتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) used to offer his prayer (while standing) in the midst of the bed, and I used to lie in front of him between him and the Qibla It I had any necessity for getting up and I used to dislike to get up and face him (while he was in prayer), but I would gradually slip away from the bed.