Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Anyone for whom a cushion was put)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6277.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے پاس میرے روزہ رکھنے کا ذکر کیا گیا آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کے لیے ایک تکیہ لگایا جو چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ ﷺ زمین پر ہی بیٹھ گئے اور تکیہ میرے اور آپ کے درمیان ویسے ہی پڑا رہا، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہارے لیے ہر مہینے کے تین روزے کافی نہیں؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (میں زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”چلو پانچ دن رکھ لیا کرو۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”سات دن“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”نو دن“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”گیارہ دن کے روزے رکھ لیا کرو۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ رکھ سکتا ہوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”داود ؑ کے روزے سے بڑھ کر کوئی روزہ نہیں جو نصف دہر کے ہیں یعنی ایک دن کا روزہ سے بڑھ کر کوئی روزہ نہیں جو نصف دہر کے ہیں یعنی ایک دن کا روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا۔“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6052
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6277
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6277
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6277
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے پاس میرے روزہ رکھنے کا ذکر کیا گیا آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کے لیے ایک تکیہ لگایا جو چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ ﷺ زمین پر ہی بیٹھ گئے اور تکیہ میرے اور آپ کے درمیان ویسے ہی پڑا رہا، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہارے لیے ہر مہینے کے تین روزے کافی نہیں؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (میں زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”چلو پانچ دن رکھ لیا کرو۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”سات دن“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں) آپ نے فرمایا: ”نو دن“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”گیارہ دن کے روزے رکھ لیا کرو۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! (میں اس سے زیادہ رکھ سکتا ہوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”داود ؑ کے روزے سے بڑھ کر کوئی روزہ نہیں جو نصف دہر کے ہیں یعنی ایک دن کا روزہ سے بڑھ کر کوئی روزہ نہیں جو نصف دہر کے ہیں یعنی ایک دن کا روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا (دوسری سند) حضرت امام بخاری ؓ نے کہا اور مجھ سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عون نے بیان کیا، ان سے خالد (بن عبد اللہ طحان) نے بیان کیا، ان سے خالد (حذاء) نے، ان سے ابو قلابہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوالملیح عامربن زید نے خبر دی، انہوں نے (ابوقلابہ) کو (خطاب کرکے) کہا کہ میں تمہارے والد زید کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے میرے روزے کا ذکر کیا گیا۔ آنحضرت ﷺ میرے یہاں تشریف لائے میں نے آپ کے لئے چمڑے کا ایک گدا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی بچھا دیا۔ آنحضرت ﷺ زمین پر بیٹھے اور گدا میرے اور آنحضرت ﷺ کے درمیان ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر آنحضرت ﷺ نے مجھ سے فرمایا کیا تمہارے لئے ہر مہینے میں تین دن کے (روزے) کافی نہیں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر پانچ دن رکھا کر۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! فرمایا سات دن۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! فرمایا نو دن۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! فرمایا گیارہ دن۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! فرمایا حضرت داؤ د ؑ کے روزے سے زیادہ کوئی روزہ نہیں ہے۔ زندگی کے نصف ایام، ایک دن کا روزہ اور ایک دن بغیر روزہ کے رہنا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گدا بچھا نا اور اس پر بیٹھنا جائز ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin 'Amr (RA) : The news of my fasting was mentioned to the Prophet (ﷺ) . So he entered upon me and I put for him a leather cushion stuffed with palm-fibres. The Prophet (ﷺ) sat on the floor and the cushion was between me and him. He said to me, "Isn't it sufficient for you (that you fast) three days a month?" I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (I can fast more than this)." He said, "You may fast) five days a month." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! (I can fast more than this)." He said, "(You may fast) seven days." I said, "O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Nine." I said, "O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Eleven." I said, "O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "No fasting is superior to the fasting of (the Prophet (ﷺ) David) which was one half of a year, and he used, to fast on alternate days. (See Hadith No. 300, Vol 3)