Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Mid-day nap in the Mosque)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6280.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہیں تھا۔ جب انہیں ابو تراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے ہوا یوں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ان کو گھر میں نہ پایا۔ آپ نے دریافت کیا: (بیٹی!) تمہارے چچا کے بیٹے (شوہر نامدار) کدھر گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہوکر باہر چلے گئے ہیں انہوں نے میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ انہوں نے میرے ہاں قیلولہ بھی نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ”دیکھو وہ (علی) کہاں ہیں؟“ وہ شخص گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول وہ تو مسجد میں سو رہے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے جبکہ ایک طرف سے ان کی چادر گری ہوئی تھی اور آپ کا وہ پہلو گرد آلود ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ان سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے: ”ابو تراب! اٹھو۔ ابو تراب ! اٹھو۔“
تشریح:
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوپہر کے وقت مسجد میں آرام کیا، اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ مسئلہ اخذ کیا کہ مسجد میں بھی قیلولہ جائز ہے۔ شارح صحیح بخاری امام مہلب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث سے ضرورت کے بغیر بھی مسجد میں قیلولہ کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن بعض دیگر علماء کی رائے ہے کہ سیاق حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں ضرورت کے بغیر سونا درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے مسجد کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ (فتح الباري:84/11) (2) اس حدیث سے دور نبوی کے معاشرے کی ایک خوبصورت جھلک بھی نظر آتی ہے کہ جب کسی نوجوان کی اپنے گھر میں شکر رنجی ہو جاتی تو وہ کسی نیٹ کیفے، کلب، سینما یا تھیٹر کا رخ کرنے کی بجائے مسجد کا رخ کرتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سکون واطمینان کی یہی جگہ ایک جگہ ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6056
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6280
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6280
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6280
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہیں تھا۔ جب انہیں ابو تراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے ہوا یوں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ان کو گھر میں نہ پایا۔ آپ نے دریافت کیا: (بیٹی!) تمہارے چچا کے بیٹے (شوہر نامدار) کدھر گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہوکر باہر چلے گئے ہیں انہوں نے میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ انہوں نے میرے ہاں قیلولہ بھی نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ”دیکھو وہ (علی) کہاں ہیں؟“ وہ شخص گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول وہ تو مسجد میں سو رہے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے جبکہ ایک طرف سے ان کی چادر گری ہوئی تھی اور آپ کا وہ پہلو گرد آلود ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ان سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے: ”ابو تراب! اٹھو۔ ابو تراب ! اٹھو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوپہر کے وقت مسجد میں آرام کیا، اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ مسئلہ اخذ کیا کہ مسجد میں بھی قیلولہ جائز ہے۔ شارح صحیح بخاری امام مہلب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث سے ضرورت کے بغیر بھی مسجد میں قیلولہ کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن بعض دیگر علماء کی رائے ہے کہ سیاق حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں ضرورت کے بغیر سونا درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے مسجد کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ (فتح الباري:84/11) (2) اس حدیث سے دور نبوی کے معاشرے کی ایک خوبصورت جھلک بھی نظر آتی ہے کہ جب کسی نوجوان کی اپنے گھر میں شکر رنجی ہو جاتی تو وہ کسی نیٹ کیفے، کلب، سینما یا تھیٹر کا رخ کرنے کی بجائے مسجد کا رخ کرتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سکون واطمینان کی یہی جگہ ایک جگہ ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد العزیز بن حازم نے بیان کیا، ان سے حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ کو کوئی نام ”ابو تراب“ سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ جب ان کو اس نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ ؑ کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی ؓ کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا کہ بیٹی تمہارے چچا کے لڑکے (اور شوہر) کہا ں گئے ہیں؟ انہوں نے کہا میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی وہ مجھ پر غصہ ہو کر باہر چلے گئے اور میرے یہاں (گھر میں) قیلولہ نہیں کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص سے کہا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں۔ وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی ؓ لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور گرد آلود ہو گئی تھی آنحضرت ﷺ اس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے، ابو تراب! (مٹی والے) اٹھو، ابو تراب! اٹھو۔
حدیث حاشیہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں قیلولہ کرتے ہوئے پائے گئے اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ مگر عرب لوگ باپ کے چچا کو بھی چچا کہہ دیتے ہیں اسی بنا پر آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے این ابن عمك کے الفاظ استعمال فرمائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA) : There was no name dearer to 'Ali than his nickname Abu Turab (the father of dust). He used to feel happy whenever he was called by this name. Once Allah's Apostle (ﷺ) came to the house of Fatima but did not find 'Ali in the house. So he asked "Where is your cousin?" She replied, "There was something (a quarrel) between me and him whereupon he got angry with me and went out without having a midday nap in my house." Allah's Apostle (ﷺ) asked a person to look for him. That person came, and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! He (Ali) is sleeping in the mosque." So Allah's Apostle (ﷺ) went there and found him lying. His upper body cover had fallen off to one side of his body, and so he was covered with dust. Allah's Apostle (ﷺ) started cleaning the dust from him, saying, "Get up, O Abu Turab! Get up, Abu Turab!" (See Hadith No. 432, Vol 1)