باب: آدمی جس کا م میں مصروف ہو کر اللہ کی عبادت سے غافل ہوجائے وہ لھو میں داخل اور باطل ہے
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Every Lahw is Batil)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں اس کا کیا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ سے بہکا دینے کے لئے کھیل کود کی باتیں بول لیتے ہیں۔تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ قسم اس پروردگا ر کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ اس سے گانا مراد ہے حضرت ابن عبا س اور جابر اور حضرت عکرمہ اور حضرت سعید بن جبیرؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے حضرت امام حسن بصری نے کہا کہ یہ آیت غنا اور مزامیر کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔
6301.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے قسم اٹھائی اور قسم میں لات اور عزیٰ کا نام لیا تو وہ فوراً لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور جس میں اپنے ساتھی سے کہا آؤ، میں تمہارے ساتھ جوا کھیلتا ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ صدقہ کرے۔“
تشریح:
اس حدیث کا كتاب الاستئذان سے تعلق اس طور پر ہے کہ جوئے کی دعوت دینے والوں کو گھر آنے کی اجازت نہ دی جائے، اسی طرح جو انسان خود کو فضول کاموں میں مصروف رکھتا ہے وہ بھی اس قابل نہیں کہ اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی جائے۔ (فتح الباري:110/11) (2) اس حدیث کے آخری حصے کا سبب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ میں نے لات اور عزیٰ کے نام کی قسم اٹھائی تو میرے ساتھیوں نے مجھے کہا: تو نے ایک بے ہودہ بات کی ہے جو بہت بری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ کو بتاؤ، چنانچہ میں آپ کے پاس آیا اور اپنا ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم یہ دعا پڑھو: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علی كل شيء قدير) اور بائیں جانب تین مرتبہ تھوتھو کرو۔ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو اور آئندہ کبھی ایسا نہ کرنا۔‘‘ (سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث:3808) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (لا إله إلا الله) سے مراد یہ پورا کلمہ ہے جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد (لا إله إلا الله) ہو کیونکہ یہ بھی کلمۂ توحید ہے۔ (فتح الباری:11/110)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6074
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6301
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6301
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6301
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
اس آیت کریمہ میں (لهو الحديث )سے مراد گانا بجانا ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نیز وہ ہر چیزلهو الحديث میں شامل ہے جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کردے۔
اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں اس کا کیا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ لقمان میں فرمایا بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ سے بہکا دینے کے لئے کھیل کود کی باتیں بول لیتے ہیں۔تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ قسم اس پروردگا ر کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ اس سے گانا مراد ہے حضرت ابن عبا س اور جابر اور حضرت عکرمہ اور حضرت سعید بن جبیرؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے حضرت امام حسن بصری نے کہا کہ یہ آیت غنا اور مزامیر کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے قسم اٹھائی اور قسم میں لات اور عزیٰ کا نام لیا تو وہ فوراً لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور جس میں اپنے ساتھی سے کہا آؤ، میں تمہارے ساتھ جوا کھیلتا ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ صدقہ کرے۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا كتاب الاستئذان سے تعلق اس طور پر ہے کہ جوئے کی دعوت دینے والوں کو گھر آنے کی اجازت نہ دی جائے، اسی طرح جو انسان خود کو فضول کاموں میں مصروف رکھتا ہے وہ بھی اس قابل نہیں کہ اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی جائے۔ (فتح الباري:110/11) (2) اس حدیث کے آخری حصے کا سبب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ میں نے لات اور عزیٰ کے نام کی قسم اٹھائی تو میرے ساتھیوں نے مجھے کہا: تو نے ایک بے ہودہ بات کی ہے جو بہت بری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ کو بتاؤ، چنانچہ میں آپ کے پاس آیا اور اپنا ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم یہ دعا پڑھو: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو علی كل شيء قدير) اور بائیں جانب تین مرتبہ تھوتھو کرو۔ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو اور آئندہ کبھی ایسا نہ کرنا۔‘‘ (سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث:3808) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں (لا إله إلا الله) سے مراد یہ پورا کلمہ ہے جو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد (لا إله إلا الله) ہو کیونکہ یہ بھی کلمۂ توحید ہے۔ (فتح الباری:11/110)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھیل تماشے کی باتیں خریدتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے حمید بن عبد الرحمن نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس نے قسم کھائی اور کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم، تو پھر وہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کر دینا چاہئے۔
حدیث حاشیہ:
لہٰذا روپیہ پیسہ جوا کھیلنے کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔ جو لوگ پیرومرشد کی قسم کھاتے ہیں وہ بھی اس حدیث کے مصداق ہیں قسم کھانا صرف اللہ کے نام سے ہو غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے(مَن حَلَفَ بغیرِ اللہ فقد أشرَكَ) اس باب کی مناسبت کتاب الاستیذان سے مشکل ہے اسی طرح حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے۔ بعض نے پہلے امر کی توجیہ یہ کی ہے کہ جوا کھیلنے کے لئے جو بلائے اس کو گھر آنے کی اجازت نہ دینی چاہئے اور دوسرے کی توجیہ یہ کی ہے کہ لات اور عزیٰ کی قسم کھانا بھی لھوالحدیث میں داخل ہے جو حرام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever among you takes an oath wherein he says, 'By Al-Lat and Al-'Uzza,' names of two Idols worshipped by the Pagans, he should say, 'None has the right to be worshipped but Allah; And whoever says to his friend, 'Come, let me gamble with you ! He should give something in charity. " (See Hadith No. 645)