Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: The buildings)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوںمیں سے یہ بھی ہے کہ مویشی چرانے والے لوگ کو ٹھیوں میں اکڑ نے لگیں گے یعنی بلند کو ٹھیاں بنوا کر فخر کرنے لگیں گے۔تشریح : اس حدیث کولاکر امام بخاری نے یہ اشارہ کیاکہ بہت لمبی لمبی اونچی عمارتیں بنوانا مکروہ ہے اور اس باب میں ایک صریح روایت بھی وارد ہے جس کو ابن ابی الدنیا نے نکالا کہ جب آدمی سات ہاتھ سے زیادہ اپنی عمارت اونچی کرتا ہے تو اس کو یوں پکارتے ہیں اوفاسق تو کہا ں جاتا ہے مگر اس حدیث کی سند ضعیف ہے دوسرے موقوف ہے۔ خباب کی صحیح حدیث میں جسے ترمذی وغیرہ نے نکالا یوں ہے کہ آدمی کو ہر ایک خرچ کا ثواب ملتا ہے مگر عمارت کے خرچ کا ثواب نہیں ملتا۔ طبرانی نے معجم اوسط میں نکالا جب اللہ کسی بندے کے ساتھ برائی کرنا چاہتا ہے تو اس کا پیسہ عمار ت میں خرچ کراتا ہے مترجم ( وحید الزماں ) کہتا ہے مراد وہی عمارت ہے جو فخر اور تکبر کے لئے بے ضرورت بنائی جاتی ہے جیسے اکثر دنیا دار امیروں کی عادت ہے لیکن وہ عمارت دین کے کاموں کے لئے یا عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے بنائی جائے ، مساجد ، مدارس ، سرائیں ، یتیم خانے ان میں تو پھر ثواب ہوگا بلکہ جب تک ایسی مقدس عمارت باقی رہے گی برابر ان بنانے والوں کو ثواب ملتا رہے گا۔
6302.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے خود کو نبی ﷺ کے ساتھ دیکھا کہ میں نے (آپ کے زمانہ مبارک میں) اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا جو مجھے بارش سے محفوظ رکھتا اور دھوپ میں سایہ فراہم کرتا تھا۔ اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔
تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی تنگدستی کا اظہار ہے کہ میں نے بقدر ضرورت اپنی کٹیا تعمیر کی تھی، اس کے بعد تباہ حال اور تنگ دست وفقیر، مال دار بن گئے اور ضرورت کے بغیر مکانات تعمیر کرنے میں دلچسپی لینے لگے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمارت اپنے بنانے والے کے لیے وبال جان ہوگی مگرو وہ عمارت جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو۔" (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5237) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جن احادیث میں تعمیرات کی مذمت بیان ہوئی ہے ان سے مراد ایسی عمارات ہیں جو بلا ضرورت، محض نمائش اور اظہار فخر کے لیے بنائی گئی ہوں لیکن جو عمارتیں رہائش اور گرمی سردی سے بچاؤ کے لیے ہیں وہ قطعاً مراد نہیں کیونکہ یہ انسانی ضرورت کے لیے ہوتی ہیں۔ ( فتح الباري:111/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6075
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6302
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6302
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6302
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
قیامت کی یہ بھی ایک نشانی ہے کہ دیہاتوں میں رہنے والے غریب لوگوں پر دنیا کھل جائے گی اور وہ بلندو بالا عمارتیں اور بہترین پلازے بنا کر ان پر فخر کرنے لگیں گے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا وہ آج کوٹھیوں میں رہتے ہیں،کاریں ان کے دروازوں پر کھڑی رہتی ہیں اور وہ ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ لمبی لمبی اونچی عمارتیں تعمیر کرنا مکروہ ہے۔ہمارے رجحان کے مطابق اس سے مراد وہ عمارت ہے جو بلا ضرورت محض فخر وتکبر کے اظہار کے لیے بنائی جائے جیسا کہ اکثر دنیا دار قسم کے امیروں کی عمارتیں ہیں لیکن وہ عمارت جو دین کی سربلندی یاعام مسلمانوں کے فائدے کے لیے بنائی جائے،جیسے: مساجد، مدارس اور یتیم خانے وغیرہ تو ایسی عمارتیں بنانا باعث ثواب ہے بلکہ جب تک یہ تعمیرات باقی رہیں گی بنانے والوں کے لیے صدقۂ جاریہ ہوں گی۔واللہ اعلم
حضرت ابوہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوںمیں سے یہ بھی ہے کہ مویشی چرانے والے لوگ کو ٹھیوں میں اکڑ نے لگیں گے یعنی بلند کو ٹھیاں بنوا کر فخر کرنے لگیں گے۔تشریح : اس حدیث کولاکر امام بخاری نے یہ اشارہ کیاکہ بہت لمبی لمبی اونچی عمارتیں بنوانا مکروہ ہے اور اس باب میں ایک صریح روایت بھی وارد ہے جس کو ابن ابی الدنیا نے نکالا کہ جب آدمی سات ہاتھ سے زیادہ اپنی عمارت اونچی کرتا ہے تو اس کو یوں پکارتے ہیں اوفاسق تو کہا ں جاتا ہے مگر اس حدیث کی سند ضعیف ہے دوسرے موقوف ہے۔ خباب کی صحیح حدیث میں جسے ترمذی وغیرہ نے نکالا یوں ہے کہ آدمی کو ہر ایک خرچ کا ثواب ملتا ہے مگر عمارت کے خرچ کا ثواب نہیں ملتا۔ طبرانی نے معجم اوسط میں نکالا جب اللہ کسی بندے کے ساتھ برائی کرنا چاہتا ہے تو اس کا پیسہ عمار ت میں خرچ کراتا ہے مترجم ( وحید الزماں ) کہتا ہے مراد وہی عمارت ہے جو فخر اور تکبر کے لئے بے ضرورت بنائی جاتی ہے جیسے اکثر دنیا دار امیروں کی عادت ہے لیکن وہ عمارت دین کے کاموں کے لئے یا عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے بنائی جائے ، مساجد ، مدارس ، سرائیں ، یتیم خانے ان میں تو پھر ثواب ہوگا بلکہ جب تک ایسی مقدس عمارت باقی رہے گی برابر ان بنانے والوں کو ثواب ملتا رہے گا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے خود کو نبی ﷺ کے ساتھ دیکھا کہ میں نے (آپ کے زمانہ مبارک میں) اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا جو مجھے بارش سے محفوظ رکھتا اور دھوپ میں سایہ فراہم کرتا تھا۔ اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی تنگدستی کا اظہار ہے کہ میں نے بقدر ضرورت اپنی کٹیا تعمیر کی تھی، اس کے بعد تباہ حال اور تنگ دست وفقیر، مال دار بن گئے اور ضرورت کے بغیر مکانات تعمیر کرنے میں دلچسپی لینے لگے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمارت اپنے بنانے والے کے لیے وبال جان ہوگی مگرو وہ عمارت جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو۔" (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:5237) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جن احادیث میں تعمیرات کی مذمت بیان ہوئی ہے ان سے مراد ایسی عمارات ہیں جو بلا ضرورت، محض نمائش اور اظہار فخر کے لیے بنائی گئی ہوں لیکن جو عمارتیں رہائش اور گرمی سردی سے بچاؤ کے لیے ہیں وہ قطعاً مراد نہیں کیونکہ یہ انسانی ضرورت کے لیے ہوتی ہیں۔ ( فتح الباري:111/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق نے بیان کیا وہ سعید کے بیٹے ہیں، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا تاکہ بارش سے حفاظت رہے اور دھوپ سے سایہ حاصل ہو اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ضرورت کے لائق گھر بنانا درست ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو ہریرہ ؓ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں: ”قیامت کی نشانیوں میں سے بھی ہے کہ جس وقت مویشی چرانے والے محلات بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔“
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : During the life-time of the Prophet (ﷺ) I built a house with my own hands so that it might protect me from the rain and shade me from the sun; and none of Allah's creatures assisted me in building it.