باب: آدھی رات کے بعد صبح صادق کے پہلے دعا کرنے کی فضیلت
)
Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: Invocation in the middle of the night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6321.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارا رب تبارک وتعالٰی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے میں اسے بخشش دوں؟“
تشریح:
1) حدیث میں رات کی آخری تہائی کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں نصف رات کے الفاظ ہیں؟ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے حسب عادت ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں نصف رات کے الفاظ آئے ہیں جیسا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کتاب الرؤیا میں بیان کیا ہے۔ (النزول للدارقطني:17/1، و فتح الباري: 155/11) (2) علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے حدیث میں مذکور اللہ رب العزت کے نزول کو محال قرار دیا ہے لیکن سلف صالحین اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو کسی قسم کی تاویل کے بغیر اپنے ظاہر پر محمول کرتے ہیں۔ یہ امر اللہ تعالیٰ کے لیے قطعاً محال نہیں کہ وہ بیک وقت عرش پر بھی ہو اور آسمان پر بھی نزول فرمائے: (إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) اس مسئلے کے متعلق ہم کتاب التوحید میں تفصیل سے لکھیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6094
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6321
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6321
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6321
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
آدھی رات سے طلوع فجر تک کا وقت بہت ہی خیر و برکت کا ہے۔ اس وقت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اس وقت لوگ نیند میں ہوتے ہیں۔ آرام پرست لوگوں کے لیے اس وقت بیدار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن وہ لوگ انتہائی خوش بخت ہیں جو اس وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور خود کو پیش کرتے ہیں اور اس سے مناجات میں مصروف ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت قیام کرنے پر ہمیشگی فرمائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس وقت قیام کی عادت بنائیں، خواہ تھوڑی دیر کے لیے ہو۔ اس وقت کا استغفار اپنے اندر بڑی تاثیر رکھتا ہے۔ واللہ المستعان
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارا رب تبارک وتعالٰی ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے میں اسے بخشش دوں؟“
حدیث حاشیہ:
1) حدیث میں رات کی آخری تہائی کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں نصف رات کے الفاظ ہیں؟ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے حسب عادت ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں نصف رات کے الفاظ آئے ہیں جیسا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے کتاب الرؤیا میں بیان کیا ہے۔ (النزول للدارقطني:17/1، و فتح الباري: 155/11) (2) علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے حدیث میں مذکور اللہ رب العزت کے نزول کو محال قرار دیا ہے لیکن سلف صالحین اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو کسی قسم کی تاویل کے بغیر اپنے ظاہر پر محمول کرتے ہیں۔ یہ امر اللہ تعالیٰ کے لیے قطعاً محال نہیں کہ وہ بیک وقت عرش پر بھی ہو اور آسمان پر بھی نزول فرمائے: (إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) اس مسئلے کے متعلق ہم کتاب التوحید میں تفصیل سے لکھیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابو عبد اللہ الاغر اور ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ میں اس کی بخشش کروں۔
حدیث حاشیہ:
حدیث باب میں اللہ پاک رب العالمین کے آخر تہائی حصہ رات میں آسمان دنیا پر نزول کا ذکر ہے یعنی خود پرور دگار اپنی ذات سے نزول فرماتا ہے جیسا کہ دوسری روایت میں خود ذات کی صراحت موجود ہے اب بعض لوگوں کی یہ تاویل کہ اس کی رحمت اترتی ہے یا فرشتے اترتے ہیں یہ محض تاویل فاسد ہے۔ اور امام شیخ الاسلام حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد رشید حضرت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس عقیدہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ کی مستقل کتاب النزول ہے اس میں آ پ نے مخالفین کے تمام اعتراضات اور شبہات کا جواب مفصل دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نزول بھی پروردگار کی ایک صفت ہے جس کو ہم اور صفات کی طرح اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں لیکن اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے اور یہ نزول اس کا مخلوقات کی طرح نہیں ہے اور یہ امر اس کے لئے قطعاً محال نہیں ہے کہ وہ بیک وقت عرش پر بھی ہو اور آسمان دنیا پر نزول بھی فرمائے (إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) ایسے استحالات پیش کرنے والوں کی نگاہیں کمزور ہیں۔ ترجمہ باب میں نصف لیل کا ذکر تھا اور حدیث میں آخری ثلث لیل مذکور ہے۔ اس کا جواب حافظ صاحب نے یوں دیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے موافق حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کو دارقطنی نے نکالا اس میں ثلث لیل مذکور ہے اور ابن بطال نے کہا حضرت امام بخاری نے قرآن کی آیت کو لیا جس میں نصفه کا لفظ یعنی ﴿نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا﴾ اور اس کی متابعت سے باب میں نصفه الآیۃ کا لفظ ذکر کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "When it is the last third of the night, our Lord, the Blessed, the Superior, descends every night to the heaven of the world and says, 'Is there anyone who invokes Me (demand anything from Me), that I may respond to his invocation; Is there anyone who asks Me for something that I may give (it to) him; Is there anyone who asks My forgiveness that I may forgive him?' "