Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The invocation after the Salat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6329.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کی: اللہ کے رسول! مال دار لوگ بلند درجات اور دائمی نعمتیں لے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کیسے؟“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنا زائد مال بھی خرچ کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کی خبر نہ دوں جس پر عمل کرکے تم اس شخص کو پالو گے جو تم سے پہلے گزرا ہے اور اپنے بعد آنے والوں سے سبقت لے جاؤ گے اور کوئی شخص شخص اتنا ثواب نہ حاصل کر سکے گا جو تم نے کیا ہوگا سوائے اس صورت کے کہ جب وہ بھی وہی عمل کرے جو تم کرو گے وہ یہ کہ تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔“ عبیداللہ بن عمر نے سمی سے روایت کرنے میں ورقاء کی متابعت کی ہے نیز اس طريق کو ابن عجلان نے سمی اور رجاء بن حیوہ سے روایت کیا۔ اسی طرح جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے، انہوں نے ابو صالح سے، انہوں نے ابو الددراء سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ سہیل نے اپنے باپ سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ فقراء و مہاجرین دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے مال دار بھائیوں کو ہمارے عمل کا پتا چل گیا ہے اور انہوں نے بھی اسے شروع کر دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1347 (595)) صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ کلمات دس، دس بار کہنے کے بجائے تینتیس، تینتیس مرتبہ کہنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الاذان، حدیث: 843) (2) ان کلمات کا کثیر تعداد میں ثواب اس لیے ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی نقائص سے پاکیزگی اور کمالات کا اثبات ہے۔ واللہ أعلم۔ ان احادیث میں دعا کے بجائے ذکر کرنے کا بیان ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ ذکر کرنے والے کو وہی کچھ ملتا ہے جو دعا کرنے والے کو ملتا ہے جبکہ وہ ذکر کرنے میں اس قدر مصروف ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کر سکے۔ (فتح الباري: 160/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6102
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6329
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6329
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6329
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ان اہل علم کا رد کیا ہے جن کا موقف ہے کہ نماز کے بعد دعا کرنا مشروع نہیں بلکہ جن احادیث میں دعا کرنے کا ذکر ہے اس سے مراد نماز میں دعا کرنا ہے کیونکہ اس وقت نمازی اپنے رب سے مناجات میں مصروف ہوتا ہے۔ وہ اپنے موقف کی تائید میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد صرف درج ذیل دعا پڑھنے کی مقدار بیٹھتے تھے: "اے اللہ! تو سلامتی والا ہے، تیری ہی طرف سے سلامتی ہے۔ اے شان و اکرام والے! تو بڑا ہی بابرکت ہے۔" (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1335 (592)) امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رو ہو کر نماز کی سی حالت پر اتنی دیر ٹھہرتے تھے لیکن اس حدیث سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منہ کر کے دعا کرنے کی نفی کشید نہیں کی جا سکتی، بلکہ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: "اے معاذ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، لہذا ہر نماز کے بعد درج ذیل دعا کرنا مت بھولیں: ''اے اللہ! اپنے ذکر اور شکر کی ادائیگی کے لیے میری مدد فرما اور مجھے اپنی بہترین عبادت کی توفیق دے۔'' (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1522) نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل دعا ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے: ''اے اللہ! میں کفر و فقر اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔'' (سنن النسائی، السھو، حدیث: 1348) چنانچہ شیخ الاسلام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نماز سے سلام پھیرنے کے بعد قبلے ہی کی طرف منہ کیے ہوئے دعا کرنا کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین سے ایسا کرنا منقول نہیں ہے۔ (فتح الباری: 11/160)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کی: اللہ کے رسول! مال دار لوگ بلند درجات اور دائمی نعمتیں لے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کیسے؟“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنا زائد مال بھی خرچ کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کی خبر نہ دوں جس پر عمل کرکے تم اس شخص کو پالو گے جو تم سے پہلے گزرا ہے اور اپنے بعد آنے والوں سے سبقت لے جاؤ گے اور کوئی شخص شخص اتنا ثواب نہ حاصل کر سکے گا جو تم نے کیا ہوگا سوائے اس صورت کے کہ جب وہ بھی وہی عمل کرے جو تم کرو گے وہ یہ کہ تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔“ عبیداللہ بن عمر نے سمی سے روایت کرنے میں ورقاء کی متابعت کی ہے نیز اس طريق کو ابن عجلان نے سمی اور رجاء بن حیوہ سے روایت کیا۔ اسی طرح جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے، انہوں نے ابو صالح سے، انہوں نے ابو الددراء سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ سہیل نے اپنے باپ سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ فقراء و مہاجرین دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے مال دار بھائیوں کو ہمارے عمل کا پتا چل گیا ہے اور انہوں نے بھی اسے شروع کر دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1347 (595)) صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ کلمات دس، دس بار کہنے کے بجائے تینتیس، تینتیس مرتبہ کہنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الاذان، حدیث: 843) (2) ان کلمات کا کثیر تعداد میں ثواب اس لیے ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی نقائص سے پاکیزگی اور کمالات کا اثبات ہے۔ واللہ أعلم۔ ان احادیث میں دعا کے بجائے ذکر کرنے کا بیان ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ ذکر کرنے والے کو وہی کچھ ملتا ہے جو دعا کرنے والے کو ملتا ہے جبکہ وہ ذکر کرنے میں اس قدر مصروف ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کر سکے۔ (فتح الباري: 160/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو زید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم کو ورقاء نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح ذکوان نے اور انہیں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! مالدار لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت کی نعمتوں کو حاصل کرلے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ کیسے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں وہ بھی جہاد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ اپنا زائد مال بھی (اللہ کے راستہ میں) خرچ کرتے ہیں اور ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتلاؤں جس سے تم اپنے آگے کے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ اور اپنے پیچھے آنے والوں سے آگے نکل جاؤ اور کوئی شخص اتنا ثواب نہ حاصل کر سکے جتنا تم نے کیا ہو، سوا اس صورت کے جب کہ وہ بھی وہی عمل کرے جو تم کرو گے (اور وہ عمل یہ ہے) کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ پڑھا کرو، دس مرتبہ الحمدللہ پڑھا کرو اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔ اس کی روایت عبید اللہ بن عمر نے سمی اور رجاء بن حیوہ سے کی اور اس کی روایت جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے کی، ان سے ابو صالح نے اور ان سے حضرت ابو درداءؓ نے۔ اور اس کی روایت سہیل نے اپنے والد سے کی، ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے اور ان سے نبی کریمﷺ نے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! The rich people have got the highest degrees of prestige and the permanent pleasures (in this life and the life to come in the Hereafter)." He said, "How is that?" They said, "The rich pray as we pray, and strive in Allah's Cause as we do, and spend from their surplus wealth in charity, while we have no wealth (to spend likewise)." He said, "Shall I not tell you a thing, by doing which, you will catch up with those who are ahead of you and supersede those who will come after you; and nobody will be able to do such a good deed as you do except the one who does the same (deed as you do). That deed is to recite 'Subhan Allah ten times, and 'Al-Hamdulillah ten times, and 'AllahuAkbar' ten times after every prayer."