Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The raising of the hands on invoking)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابو مو سیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے دعا کی اور اپنے ہاتھ اٹھا ئے تو میں نے آپ ﷺ کی بغلو ں کی سفیدی دیکھی اور عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ نبی کریمﷺنے اپنے ہاتھ اٹھا ئے اور دعا فرمائے کہ ” اے اللہ ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں ۔
6341.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کیے کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
تشریح:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے وقت ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، البتہ دعائے استسقاء میں اس قدر ہاتھ اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ (صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1031) اس حدیث سے بعض اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ استسقاء کی دعا کے علاوہ کسی موقع پر ہاتھ نہیں اٹھانے چاہئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید میں یہ عنوان اور مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ دعائے استسقاء میں ہاتھوں کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے کہ ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور اندرونی حصہ زمین کی طرف ہوتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کو مبالغے کی حد تک اوپر اٹھاتے تھے حتی کہ انہیں اپنے منہ کے برابر کر لیتے۔ اس سے مراد مطلق طور پر ہاتھ اٹھانے کی نفی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایسی متعدد احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں دعا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري: 171/11)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
6398
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
6341
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
5865.91
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
6340.91
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
5981.91
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6114
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6341
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6341
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6341
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت کو دوسرے مقام پر متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4323) اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی موصولاً گزر چکی ہے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4339) اس حدیث میں خالد سے مراد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کا واقعہ مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک فوجی دستہ دے کر بنو جذیمہ کی طرف روانہ کیا کہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ ان لوگوں نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن اچھی طرح اس کا اظہار نہ کر سکے۔ انہوں نے خود کو مسلمان کہنے کے بجائے صابی کہہ ڈالا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا۔ جب اس واقعے کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے اس پر اظہار افسوس کیا۔
اور ابو مو سیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے دعا کی اور اپنے ہاتھ اٹھا ئے تو میں نے آپ ﷺ کی بغلو ں کی سفیدی دیکھی اور عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ نبی کریمﷺنے اپنے ہاتھ اٹھا ئے اور دعا فرمائے کہ ” اے اللہ ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کیے کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے وقت ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، البتہ دعائے استسقاء میں اس قدر ہاتھ اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ (صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1031) اس حدیث سے بعض اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ استسقاء کی دعا کے علاوہ کسی موقع پر ہاتھ نہیں اٹھانے چاہئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید میں یہ عنوان اور مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ دعائے استسقاء میں ہاتھوں کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے کہ ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور اندرونی حصہ زمین کی طرف ہوتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کو مبالغے کی حد تک اوپر اٹھاتے تھے حتی کہ انہیں اپنے منہ کے برابر کر لیتے۔ اس سے مراد مطلق طور پر ہاتھ اٹھانے کی نفی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایسی متعدد احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں دعا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري: 171/11)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺنے دعا کی اور دونوں ہاتھ اٹھائے حتیٰ کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھیحضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں نبی ﷺنے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بری ہوں
فائدہ: امام بخارینے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت کو دوسرے مقام پر متصل سند سے بیان کیا ہے اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی موصولا گزر چکی ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو عبداللہ امام بخاری نے کہا اور عبد العزیز بن عبداللہ اویسی نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید اور شریک بن ابی نمر نے، انہوں نے حضرت انس ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ہاتھ اتنے اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت خالد نے ایک غزوہ میں بنو خزیمہ کے لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ حالانکہ وہ ''صبانا صبانا'' کہہ کر اسلام قبول کر رہے تھے۔ مگر حضرت خالد نہ سمجھ سکے اور ان کو قتل کر دیا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت خفگی کا اظہار فرمایا اور اللہ کے ساتھ اس سے بیزاری ظاہر فرمائی جو یہاں مذکور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas, "The Prophet (ﷺ) raised his hands (in invocation) till I saw the whiteness of his armpits."