باب: نبی کریم ﷺکا مرض الموت میں دعا کرنا کہ یا اللہ ! مجھ کو آخرت میں رفیق اعلیٰ ( ملائکہ اور انبیاء ) کے ساتھ ملا دے۔
)
Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The invocation of the Prophet (saws) "O Allah! The Highest Companion")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6348.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے ”کسی نبی کی روح قبض نہیں کی جاتی یہاں تک کہ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے“ جب آپ ﷺ مرض وفات میں مبتلا ہوئے تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی طاری ہوئی، جب کچھ افاقہ ہوا تو ٹکٹکی باندھ کر آپ چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔“ میں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ ہمیں اختیار نہیں کریں گے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی بات ہے جو آپ زمانہ تندرستی میں فرمایا کرتے تھے سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ کا آخری کلمہ یہ تھا جو آپ نے اپنی زبان سے ادا فرمایا: ”اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔“
تشریح:
(1) ایک روایت میں ''الرفیق الأعلیٰ'' کی وضاحت کی گئی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری وقت آپ کو کھانسی آئی اور آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’ان لوگوں کی وفاقت جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔‘‘(النساء: 69) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مجھے یقین آ گیا کہ اب آپ کو دنیا میں رہنے یا آخرت سدھارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4435) (2) امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت معوذات پڑھ کر خود پر دم نہیں کیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا بلکہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کی کہ میں نے معوذات سے دم کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھا کر کہا: (في الرفيق الأعلى) یعنی رفیق اعلیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4451)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6121
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6348
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6348
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6348
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے ”کسی نبی کی روح قبض نہیں کی جاتی یہاں تک کہ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے“ جب آپ ﷺ مرض وفات میں مبتلا ہوئے تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی طاری ہوئی، جب کچھ افاقہ ہوا تو ٹکٹکی باندھ کر آپ چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔“ میں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ ہمیں اختیار نہیں کریں گے۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی بات ہے جو آپ زمانہ تندرستی میں فرمایا کرتے تھے سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ آپ کا آخری کلمہ یہ تھا جو آپ نے اپنی زبان سے ادا فرمایا: ”اے اللہ! رفیق اعلٰی کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ''الرفیق الأعلیٰ'' کی وضاحت کی گئی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری وقت آپ کو کھانسی آئی اور آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’ان لوگوں کی وفاقت جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔‘‘(النساء: 69) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مجھے یقین آ گیا کہ اب آپ کو دنیا میں رہنے یا آخرت سدھارنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4435) (2) امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت معوذات پڑھ کر خود پر دم نہیں کیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا بلکہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کی کہ میں نے معوذات سے دم کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھا کر کہا: (في الرفيق الأعلى) یعنی رفیق اعلیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4451)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے ، انہیں سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے بہت سے علم والوں کے سامنے خبر دی کہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے (کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب آنحضرت ﷺ بیمار ہوئے اور سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا ”اے اللہ! رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے ۔“ میں نے سمجھ لیا کہ آنحضرت ﷺ اب ہمیں اختیار نہیں کرسکتے۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات آنحضرت ﷺ صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے، یہ وہی بات ہے۔ بیان کیا کہ یہ آنحضرت ﷺ کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ ”اے اللہ! رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔
حدیث حاشیہ:
آپ کو بھی اختیار دیا گیا کہ آپ دنیا میں رہنا چاہیں تو کوہ احد آپ کے لئے سونے کا بنا دیا جائے گا مگر آپ نے آخرت کو پسند فرما کرملاء اعلیٰ کی رفاقت کو پسند فرمایا۔ ( صلی اللہ علیه وسلم ألف ألف مرة)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : When Allah's Apostle (ﷺ) was healthy, he used to say, "No prophet dies till he is shown his place in Paradise, and then he is given the option (to live or die)." So when death approached him(during his illness), and while his head was on my thigh, he became unconscious for a while, and when he recovered, he fixed his eyes on the ceiling and said, "O Allah! (Let me join) the Highest Companions (see Qur'an 4:69)," I said, "So, he does not choose us." Then I realized that it was the application of the statement he used to relate to us when he was healthy. So that was his last utterance (before he died), i.e. "O Allah! (Let me join) the Highest Companions."