Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The invocation on making Istikharah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6382.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔ ۔ ۔ ۔ یا دعا میں یہ الفاظ کہے: في عاجل أمري و آجله۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس کو مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے پھر جہاں کہیں بھی بھلائی ہو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور مجھے اس سے مطمئن بھی کر دے۔ دعا کرتے وقت اپنی ضروریات کا ذکر بھی کرے۔
تشریح:
(1) اس دعا میں ''هذا الأمر'' کے بعد درپیش ضرورت کا نام لے، مثلاً: ''هذا الأمر من السفر، هذا الأمر من التجارة، هذا الأمر من الزواج'' وغیرہ۔ استخارے کی دو رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھی جا سکتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو صاف کر لے، یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت کا طالب ہو اور پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی گزارشات پیش کرے۔ استخارہ کے آداب حسب ذیل ہیں: ٭ ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے، اپنے کپڑے، بدن اور جگہ کو پاک و صاف رکھا جائے۔ ٭ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے سود ہے، نیت صرف دل سے ہو گی۔ ٭ یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ میں اپنے رب سے بھلائی کا طالب ہوں، لہذا پوری یکسوئی اور توجہ سے استخارہ کرے۔ ٭ اگر کسی گناہ کا عادی ہے تو اسے فوراً ترک کرے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، پھر درپیش مسئلہ کے متعلق استخارہ کرے۔ ٭ استخارہ ایک دعا ہے، اس لیے دعا کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھا جائے۔ درود کے وہی الفاظ ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمایا ہے۔ ٭ رزق حلال کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔ حرام روزی کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی تو استخارہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ٭ استخارہ کرنے والا یقین کامل رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، جو کام اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اس میں ہی دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔ ٭ استخارہ کے بعد وہ باوضو ہو کر قبلہ رخ لیٹ جائے بشرطیکہ استخارہ سونے سے پہلے کیا ہو اگرچہ نیند کے ساتھ استخارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (2) استخارہ کرنے کا طریقہ حسب ذیل ہے: ٭ جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو فوراً استخارہ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔ ٭ نماز کے وضو کی طرح مکمل وضو کرے۔ ٭ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل ادا کرے۔ ٭ نماز سے فراغت کے بعد استخارہ کی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔ یہ بھی واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، اس لیے انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارے کا اہتمام کر سکتا ہے۔ اگر ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے کہ تین بار اس کا اہتمام کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4649 (1794)) (3) درج ذیل امور میں استخارہ مشروع نہیں ہے: (ا) جن امور پر عمل واجب ہے، مثلاً: نماز، روزہ وغیرہ ان کی بجا آوری کے لیے استخارہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان پر عمل کرنا استخارہ کرنے کے بغیر ہی واجب ہے۔ (ب) جن امور پر عمل جائز نہیں، مثلاً: جوا اور شراب نوشی وغیرہ، ان میں بھی استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان سے دور رہنا انسان کی ذمے داری ہے۔ اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہے۔ (ج) جو امور شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہیں، مثلاً: تہجد اور تلاوت قرآن وغیرہ ایسے امور میں استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی تعمیل اور بجا آوری کو شریعت پہلے ہی پسند کر چکی ہے۔ (د) وہ امور جو شریعت کی نظر میں مکروہ ہیں، ان کا ارتکاب شارع علیہ السلام نے اچھا خیال نہیں کیا، ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں۔ (ہ) وہ امور جن کا تعلق گزشتہ واقعات سے ہے، مثلاً: چور کو تلاش کرنا، اس کے لیے استخارے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ استخارہ آئندہ پیش آمدہ ضروریات کے متعلق کیا جاتا ہے۔ صرف ان جائز امور میں استخارہ کیا جا سکتا ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس کام کو اختیار کروں، ان میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے یا کسی جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام اگر اس کے لیے فائدہ مند ہے تو کرے اور اگر بے فائدہ ہے تو اسے نظر انداز کر دے۔ (4) انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم ترین مرحلہ ہے۔ انسان کو اپنی شریک حیات کا انتخاب انتہائی سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو تو زندگی آرام اور سکون سے گزرتی ہے بصورت دیگر دنیا میں ہی سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے سلسلے میں ہم اس معیار کو برقرار نہیں رکھتے جسے شریعت نے پسند کیا ہے۔ مال و دولت اور حسب و نسب کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ شریعت کی نظر میں اس قسم کے غیر معیاری رشتوں کے لیے استخارے کا سہارا لینا کسی صورت میں جائز نہیں۔ شادی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے استخارے کے متعلق فرمایا: تم بہترین طریقے سے وضو کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو نماز مقدر کی ہے اسے ادا کرو، پھر اللہ کی تعریف اور بزرگی بیان کرتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھو: (اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ أَنْتَ عَلَّامُ [ص:567] الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةَ، تُسَمِّيهَا بِاسْمِهَا، خَيْرًا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرًا لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، فَاقْضِ لِي بِهَا " أَوْ قَالَ: «فَاقْدِرْهَا لِي»)(مسند أحمد: 423/5) ’’اے اللہ! تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔ تو پوشیدہ معاملات کو خوب جاننے والا ہے، اگر فلاں عورت (اس کا نام لے) کے متعلق جانتا ہے کہ وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین و دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا کہا: اسے میرے مقدر میں کر دے۔‘‘ (5) اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے کسی رشتے کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں لیکن استخارے سے پہلے شرعی معیار کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ (6) ہمارے ہاں غیر شرعی استخارے کی کئی صورتیں رائج ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ استخارہ سنٹر: کچھ شعبدہ باز اور چرب زبان حضرات نے استخارہ سنٹر کھول رکھے ہیں۔ یہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جان، عزت و آبرو اور مال و دولت پر شب خون مارتے ہیں۔ ان کے ہاں استخارے کی فیس مقرر ہے۔ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ کی فیس قدرے زیادہ ہے۔ اس کام کے لیے ٹی وی پر باقاعدہ چینل کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے کہ میرا فلاں کام ہوگا یا نہیں۔ یہ حضرت کچھ وقت مراقبہ کرنے کے بعد کام کے ہونے یا نہ ہونے کا بتاتا ہے۔ یہ دین فروشی کی انتہائی افسوسناک مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، کسی دوسرے سے استخارہ کرانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملے میں استخارہ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح کوئی دوسرا بھی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، مثلاً: کوئی والد اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ مناسب ہے یا نہیں، اس لیے انسان کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے کیونکہ جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے خیر و برکت طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا اس انداز سے نہیں کر سکتا۔ بہرحال دور حاضر میں جو ’’استخارہ سنٹر‘‘ جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں ان کی شرعی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ واللہ أعلم۔ ٭ تسبیح اور استخارہ: کچھ لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں۔ جو بات آخری دانے کے مطابق ہو، اس پر عمل کرنا استخارہ کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ٭ قرآن کریم اور استخارہ: کچھ لوگ قرآن مجید کا کوئی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں پھر اس کے مفہوم سے خود ساختہ نتائج کشید کرتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شرعی ہے۔ ٭ تیر اور استخارہ: بعض لوگ تیر پھینک کر استخارہ کرتے ہیں۔ اس کے دائیں یا بائیں گرنے سے نتیجہ اخذ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اسلام سے پہلے رائج تھا جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔ (7) ہمارے ہاں استخارے کے متعلق ایک زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارے کا نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ نظریہ بھی صحیح نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔ اصل بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کسی بھی طریقے سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل مطمئن کر دیتا ہے، خواہ وہ خواب کی صورت میں ہو یا دلی تسلی کی شکل میں ہو۔ اگر استخارہ کرنے کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے اختیار کر لینا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔ (8) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے استخارہ کرنے کے متعلق درج ذیل بنیادی اور اہم حقائق معلوم ہوتے ہیں: ٭ استخارہ ایک دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنی سورتوں کی طرح سکھائی تاکہ وہ اپنے معاملات کے بہتر انجام کے لیے اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کیونکہ ہر کام کے انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ٭ استخارہ کرنے والا شخص موحد، متبع سنت، مخلص اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ کبائر کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو اور صغائر پر اصرار کا عادی بھی نہ ہو۔ ٭ استخارے کی دعا کرنے سے پہلے وہ دو رکعت نفل ادا کرے، پھر سنت کے مطابق مذکورہ دعا پڑھے۔ ٭ استخارے کے الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استخارہ کرنے والے کو خود یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ استخارے کی دعا مانگنے سے پہلے اس دعا کو اچھی طرح یاد کرنا چاہیے اور اس کے معانی و مطالب کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ ٭ کسی شخص کو بھی کسی دوسرے شخص کی طرف سے استخارہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فریق ثانی کو کوئی مجبوری اور تکلیف نہیں، پھر وہ استخارے کا عمل کیوں کرے۔ ٭ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔ ٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔ ٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس لیے انسان کو شعبدہ بازوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ ٭ اہل علم حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو استخارے کی دعا اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔ (9) آخر میں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دور حاضر میں قسمت کا حال بتانے والے نجومی، شعبدہ باز جو عوام کو ان کی گم شدہ چیزوں کا پتا دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں، پھر استخارے کے ذریعے سے ان کی ’’بگڑی‘‘ بناتے ہیں وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور جھوٹی کہانیاں شائع ہوتی ہیں، ان سے بچنا ایک موحد مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔ اس غیر شرعی پیشے سے اظہار بےزاری کرنا ایک غیرت مند مسلمان کا اولین فرض ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6153
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6382
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6382
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6382
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
استخارہ کے لغوی معنی طلب خیر کے ہیں۔ کسی معاملے میں خیر و بھلائی طلب کرنے کو استخارہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر دو رکعت نماز کے بعد ایک مخصوص دعائے استخارہ کرنا، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے کی بھلائی اور انجام کار کی بہتری کا سوال کیا جاتا ہے یا پھر دو کاموں سے ایک کو اختیار کرنے یا چھوڑ دینے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ دورِ جاہلیت میں لوگ تیروں کے ذریعے سے قسمت آزمائی کرتے اور مختلف کاموں میں اس رسم بد کے ذریعے سے اپنے فیصلے کیا کرتے تھے۔ اسلام نے ایسی تمام رسومات کو ختم کر کے استخارہ کے عمل کو مشروع قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو آدمی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے اور مخلوق سے مشورہ کرے پھر اپنے کام میں ثابت قدمی اختیار کرے تو اسے کبھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ (الکلم الطیب، ص: 71) آج کا انسان زمین کی ہر چیز کو مسخر کرنے کے لیے کوشاں ہے بلکہ اب تو آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اپنے مستقبل کے متعلق کچھ کہنے یا کرنے کے متعلق تذبذب کا شکار ہے اور پریشان ہو کر سوچتا ہے کہ میں فلاں کام کروں یا نہ کروں، اس میں میرے لیے فائدہ ہو گا یا نقصان۔ اس مقام پر انسان کا علم و تجربہ اور بصیرت و عقل جواب دے جاتی ہے۔ دنیا کے کسی مذہب میں اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس مشکل مرحلے سے نکلنے کا راستہ صرف اسلام نے استخارے کی صورت میں دکھایا ہے۔ استخارے کے بعد انسان شرح صدر کے ساتھ اپنے آئندہ کے کام کرنے یا چھوڑ دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ چونکہ ہر کام کے انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس لیے استخارے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام کو قرآن کی سورت کی طرح استخارہ سکھلاتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔ ۔ ۔ ۔ یا دعا میں یہ الفاظ کہے: في عاجل أمري و آجله۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس کو مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے پھر جہاں کہیں بھی بھلائی ہو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور مجھے اس سے مطمئن بھی کر دے۔ دعا کرتے وقت اپنی ضروریات کا ذکر بھی کرے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس دعا میں ''هذا الأمر'' کے بعد درپیش ضرورت کا نام لے، مثلاً: ''هذا الأمر من السفر، هذا الأمر من التجارة، هذا الأمر من الزواج'' وغیرہ۔ استخارے کی دو رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھی جا سکتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو صاف کر لے، یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت کا طالب ہو اور پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی گزارشات پیش کرے۔ استخارہ کے آداب حسب ذیل ہیں: ٭ ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے، اپنے کپڑے، بدن اور جگہ کو پاک و صاف رکھا جائے۔ ٭ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے سود ہے، نیت صرف دل سے ہو گی۔ ٭ یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ میں اپنے رب سے بھلائی کا طالب ہوں، لہذا پوری یکسوئی اور توجہ سے استخارہ کرے۔ ٭ اگر کسی گناہ کا عادی ہے تو اسے فوراً ترک کرے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، پھر درپیش مسئلہ کے متعلق استخارہ کرے۔ ٭ استخارہ ایک دعا ہے، اس لیے دعا کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھا جائے۔ درود کے وہی الفاظ ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمایا ہے۔ ٭ رزق حلال کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔ حرام روزی کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی تو استخارہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ٭ استخارہ کرنے والا یقین کامل رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، جو کام اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اس میں ہی دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔ ٭ استخارہ کے بعد وہ باوضو ہو کر قبلہ رخ لیٹ جائے بشرطیکہ استخارہ سونے سے پہلے کیا ہو اگرچہ نیند کے ساتھ استخارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (2) استخارہ کرنے کا طریقہ حسب ذیل ہے: ٭ جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو فوراً استخارہ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔ ٭ نماز کے وضو کی طرح مکمل وضو کرے۔ ٭ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل ادا کرے۔ ٭ نماز سے فراغت کے بعد استخارہ کی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔ یہ بھی واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، اس لیے انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارے کا اہتمام کر سکتا ہے۔ اگر ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے کہ تین بار اس کا اہتمام کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4649 (1794)) (3) درج ذیل امور میں استخارہ مشروع نہیں ہے: (ا) جن امور پر عمل واجب ہے، مثلاً: نماز، روزہ وغیرہ ان کی بجا آوری کے لیے استخارہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان پر عمل کرنا استخارہ کرنے کے بغیر ہی واجب ہے۔ (ب) جن امور پر عمل جائز نہیں، مثلاً: جوا اور شراب نوشی وغیرہ، ان میں بھی استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان سے دور رہنا انسان کی ذمے داری ہے۔ اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہے۔ (ج) جو امور شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہیں، مثلاً: تہجد اور تلاوت قرآن وغیرہ ایسے امور میں استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی تعمیل اور بجا آوری کو شریعت پہلے ہی پسند کر چکی ہے۔ (د) وہ امور جو شریعت کی نظر میں مکروہ ہیں، ان کا ارتکاب شارع علیہ السلام نے اچھا خیال نہیں کیا، ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں۔ (ہ) وہ امور جن کا تعلق گزشتہ واقعات سے ہے، مثلاً: چور کو تلاش کرنا، اس کے لیے استخارے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ استخارہ آئندہ پیش آمدہ ضروریات کے متعلق کیا جاتا ہے۔ صرف ان جائز امور میں استخارہ کیا جا سکتا ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس کام کو اختیار کروں، ان میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے یا کسی جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام اگر اس کے لیے فائدہ مند ہے تو کرے اور اگر بے فائدہ ہے تو اسے نظر انداز کر دے۔ (4) انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم ترین مرحلہ ہے۔ انسان کو اپنی شریک حیات کا انتخاب انتہائی سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو تو زندگی آرام اور سکون سے گزرتی ہے بصورت دیگر دنیا میں ہی سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے سلسلے میں ہم اس معیار کو برقرار نہیں رکھتے جسے شریعت نے پسند کیا ہے۔ مال و دولت اور حسب و نسب کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ شریعت کی نظر میں اس قسم کے غیر معیاری رشتوں کے لیے استخارے کا سہارا لینا کسی صورت میں جائز نہیں۔ شادی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے استخارے کے متعلق فرمایا: تم بہترین طریقے سے وضو کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو نماز مقدر کی ہے اسے ادا کرو، پھر اللہ کی تعریف اور بزرگی بیان کرتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھو: (اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ أَنْتَ عَلَّامُ [ص:567] الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةَ، تُسَمِّيهَا بِاسْمِهَا، خَيْرًا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرًا لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، فَاقْضِ لِي بِهَا " أَوْ قَالَ: «فَاقْدِرْهَا لِي»)(مسند أحمد: 423/5) ’’اے اللہ! تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔ تو پوشیدہ معاملات کو خوب جاننے والا ہے، اگر فلاں عورت (اس کا نام لے) کے متعلق جانتا ہے کہ وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین و دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا کہا: اسے میرے مقدر میں کر دے۔‘‘ (5) اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے کسی رشتے کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں لیکن استخارے سے پہلے شرعی معیار کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ (6) ہمارے ہاں غیر شرعی استخارے کی کئی صورتیں رائج ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ استخارہ سنٹر: کچھ شعبدہ باز اور چرب زبان حضرات نے استخارہ سنٹر کھول رکھے ہیں۔ یہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جان، عزت و آبرو اور مال و دولت پر شب خون مارتے ہیں۔ ان کے ہاں استخارے کی فیس مقرر ہے۔ سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ کی فیس قدرے زیادہ ہے۔ اس کام کے لیے ٹی وی پر باقاعدہ چینل کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے کہ میرا فلاں کام ہوگا یا نہیں۔ یہ حضرت کچھ وقت مراقبہ کرنے کے بعد کام کے ہونے یا نہ ہونے کا بتاتا ہے۔ یہ دین فروشی کی انتہائی افسوسناک مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، کسی دوسرے سے استخارہ کرانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملے میں استخارہ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح کوئی دوسرا بھی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، مثلاً: کوئی والد اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ مناسب ہے یا نہیں، اس لیے انسان کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے کیونکہ جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے خیر و برکت طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا اس انداز سے نہیں کر سکتا۔ بہرحال دور حاضر میں جو ’’استخارہ سنٹر‘‘ جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں ان کی شرعی حالت انتہائی مخدوش ہے۔ واللہ أعلم۔ ٭ تسبیح اور استخارہ: کچھ لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں۔ جو بات آخری دانے کے مطابق ہو، اس پر عمل کرنا استخارہ کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ٭ قرآن کریم اور استخارہ: کچھ لوگ قرآن مجید کا کوئی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں پھر اس کے مفہوم سے خود ساختہ نتائج کشید کرتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شرعی ہے۔ ٭ تیر اور استخارہ: بعض لوگ تیر پھینک کر استخارہ کرتے ہیں۔ اس کے دائیں یا بائیں گرنے سے نتیجہ اخذ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اسلام سے پہلے رائج تھا جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔ (7) ہمارے ہاں استخارے کے متعلق ایک زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارے کا نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ نظریہ بھی صحیح نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔ اصل بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کسی بھی طریقے سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل مطمئن کر دیتا ہے، خواہ وہ خواب کی صورت میں ہو یا دلی تسلی کی شکل میں ہو۔ اگر استخارہ کرنے کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے اختیار کر لینا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔ (8) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے استخارہ کرنے کے متعلق درج ذیل بنیادی اور اہم حقائق معلوم ہوتے ہیں: ٭ استخارہ ایک دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنی سورتوں کی طرح سکھائی تاکہ وہ اپنے معاملات کے بہتر انجام کے لیے اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کیونکہ ہر کام کے انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ٭ استخارہ کرنے والا شخص موحد، متبع سنت، مخلص اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ کبائر کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو اور صغائر پر اصرار کا عادی بھی نہ ہو۔ ٭ استخارے کی دعا کرنے سے پہلے وہ دو رکعت نفل ادا کرے، پھر سنت کے مطابق مذکورہ دعا پڑھے۔ ٭ استخارے کے الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استخارہ کرنے والے کو خود یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ استخارے کی دعا مانگنے سے پہلے اس دعا کو اچھی طرح یاد کرنا چاہیے اور اس کے معانی و مطالب کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ ٭ کسی شخص کو بھی کسی دوسرے شخص کی طرف سے استخارہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فریق ثانی کو کوئی مجبوری اور تکلیف نہیں، پھر وہ استخارے کا عمل کیوں کرے۔ ٭ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔ ٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔ ٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس لیے انسان کو شعبدہ بازوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ ٭ اہل علم حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو استخارے کی دعا اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔ (9) آخر میں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دور حاضر میں قسمت کا حال بتانے والے نجومی، شعبدہ باز جو عوام کو ان کی گم شدہ چیزوں کا پتا دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں، پھر استخارے کے ذریعے سے ان کی ’’بگڑی‘‘ بناتے ہیں وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور جھوٹی کہانیاں شائع ہوتی ہیں، ان سے بچنا ایک موحد مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔ اس غیر شرعی پیشے سے اظہار بےزاری کرنا ایک غیرت مند مسلمان کا اولین فرض ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو مصعب مطرف بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الرحمن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے، قرآن کی سورت کی طرح (نبی اکرم ﷺ نے فرمایا) جب تم میں سے کوئی شخص کسی (مباح) کام کا ارادہ کرے (ابھی پکا عزم نہ ہوا ہو) تو دورکعات (نفل) پڑھے اس کے بعد یوں دعا کرے ”اے اللہ! میں بھلائی مانگتا ہوں (استخارہ) تیری بھلائی سے، تو علم والا ہے، مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لئے بہتر ہے، میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے یا دعا میں یہ الفاظ کہے ''في عاجل أمري وآجله'' تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لئے برا ہے میرے دین کے لئے، میری زندگی کے لئے اورمیرے انجام کار کے لئے یا یہ الفاظ فرمائے ''في عاجل أمري و آجله'' تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لئے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے (یہ دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا بیان کر دینا چاہئے۔
حدیث حاشیہ:
جب کسی شخص کو ایک کام کرنے یا نہ کرنے میں تردد ہو یا دو باتوں یا دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے میں تو باب کی حدیث کے موافق استخارہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اس پر خواب میں یا اور کسی طرح جو اس کے حق میں بہتر ہوگا اس پر کھول دے گا یا اسی کی توفیق دے گا۔ بس جو استخارہ بہ سند صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے وہ یہی ہے۔ باقی استخارے جو شیعہ امامیہ کیا کرتے ہیں۔ مثلاً تسبیح پر یا استخارہ ذات الرقاع ان کی اصل حدیث کی کتابوں میں نہیں ملتی۔ استخارہ کرنا گویا اللہ سے طلب خیر کرنا اورمشورہ طلب کرنا ہے۔ قدرت کے اشارے ہوتے ہیں اور ان کی بنا پر اہل ایما ن صاحبان فراست اللہ کے اشاروں کو سمجھ کر ان کے مطابق قدم اٹھا تے ہیں۔ اس مقصد کے لئے دعا ئے مسنونہ جو یہاں مرقوم ہے بہترین دعا ہے اور بکثرت یوں پڑھنا اللهم خیِّر لي و اختَر لي بھی استخارہ، کے لئے بہترین عمل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA) : The Prophet (ﷺ) used to teach us the Istikhara for each and every matter as he used to teach us the Suras from the Holy Qur'an. (He used to say), "If anyone of you intends to do something, he should offer a two-Rak'at prayer other than the obligatory prayer, and then say: 'Allahumma inni astakhiruka bi'ilmika, wa astaqdiruka biqudratika, wa as'aluka min fadlika-l-'azim, fa innaka taqdiru wala aqdiru, wa ta'lamu wala a'lamu, wa anta'allamu-l-ghuyub. Allahumma in kunta ta'lamu anna hadha-lamra khairun li fi dini wa ma'ashi wa 'aqibati amri (or said, fi 'ajili amri wa ajilihi) fa-qdurhu li, Wa in junta ta'lamu anna ha-dha-l-amra sharrun li fi dini wa ma'ashi wa 'aqibati amri (or said, fi ajili amri wa ajilihi) fasrifhu 'anni was-rifni 'anhu wa aqdur li alkhaira haithu kana, thumma Raddani bihi," Then he should mention his matter (need).