باب:مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر(دوسرے) شہروں کی طرف بھیجنا
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: What is said regarding the hand to hand exchange (of books of knowledge), and the writing of knowledge by religious scholars to different countries)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ نے مصاحف ( یعنی قرآن ) لکھوائے اور انھیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ( کتابت ) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر ( قاصد سے ) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاو اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ ﷺ کا حکم تھا وہ انھیں بتلایا۔
64.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور اس سے فرمایا: ’’یہ خط بحرین کے گورنر کو پہنچا دے۔‘‘ پھر حاکم بحرین نے اس کو کسریٰ تک پہنچا دیا۔ کسریٰ نے اسے پڑھ کر چاک کر دیا۔ راوی (ابن شہاب) نے کہا: میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے کہا: (اس واقعے کو سن کر) رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ وہ ہر طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث بیان فرمانے کے لیے مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ باب مناولہ اورمکاتبہ کے اثبات کے لیے ہے۔ اس حدیث سے مناولہ بایں طور پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکتوب گرامی دیا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے گورنرکوپہنچادیں اور اسے بتائیں کہ اسے ایران کے بادشاہ کسریٰ تک پہنچادے، حالانکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ خود مکتوب پڑھا اور نہ ہی سنا۔ یہ اگرچہ اصطلاحی مناولہ نہیں، تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اثبات کے لیے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوتی ہے۔ اور مکاتبہ کا انطباق تو بالکل ظاہر ہے۔ (فتح الباري: 205/1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مصنف نے عنوان میں دوامور کا ذکر کیا تھا: مناولہ اورمکاتبہ، پھر پیش کردہ حدیث سے عنوان کا دوسرا جز ثابت کیا جس سے جز اول کا ثبوت بطریق اولیٰ نکل آیا ہے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد شاہان عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرمائے، حدیث میں مذکورہ خط بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس خط کو آپ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کیا تاکہ وہ بحرین کے گورنر کے ذریعے سے شاہ فارس کسریٰ کو پہنچادیں۔ یہ زمانہ خسرو پرویز کا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا حرف بحرف پوری ہوئی، چنانچہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا اور وہ خود خطرناک زہر کھانے کے بعد ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد سلطنت کے معاملات اس کی بیٹی کے سپرد کیے گئے، وہ اس وسیع سلطنت کاانتظام نہ کرسکی، بالآخر طوائف الملوکی شروع ہوگئی اور سلطنت کانام ونشان تک مٹ گیا۔ (شرح الکرماني: 22/2)اس حدیث سے اہل علم کی علمی باتوں کوتحریر کر کے دیگر ممالک ارسال کرنے کا ثبوت ملتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلم حکومت سے اعلان جنگ سے پہلے اسے دین اسلام کی دعوت دی جائے، اگر وہ بے ادبی اورگستاخی کریں تو ان کے خلاف بددعا کی جائے۔ خبرواحد کی حجیت کا ثبوت بھی اس حدیث سے ملتا ہے۔ ( شرح الکرماني: 22/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
64
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
64
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
64
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
64
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
علم حدیث کئی ایک طریقوں سے حاصل کیا جاتا ہے جن میں سماع من الشیخ(استاد سے سننا) اور قراءت علی الشیخ (استاد کو سنانا) کاذکر ہوچکا ہے۔اب مناولہ اور مکاتبہ کا اثبات فرماتے ہیں۔مناولہ یہ ہے کہ شیخ اپنی مرویات پر مشتمل کوئی کتاب اپنے شاگرد کو دے دے اور اسے کتاب میں درج شدہ روایات بیان کرنے کی اجازت بھی دےدے۔اگراجازت نہ دے تو (حَدَّثَنِي) یا (اَخَبَرنِي) کے صیغے سے بیان کرناجائز نہیں۔(مُكَاتَبَه) یہ ہے کہ شیخ اپنے شاگرد کے پاس چند احادیث پر مشتمل ایک تحریر بھیجتا ہے او راجازت دیتا ہے کہ تم ان مرویات کو میری سند سے بیان کرسکتے ہو۔ان میں سے بعض محدثین نے مناولہ کو راجح قراردیا ہے کہ یہ آمنے سامنے کا معاملہ ہے جبکہ مکاتبہ میں مکتوب الیہ غائب ہوتا ہے،اور بعض محدثین کے نزدیک مکاتبہ ترجیح یافتہ ہے۔كيونکہ اس میں ایک استاد اپنے شاگرد ہی کے لیے مرویات لکھتا ہے،اس لیے وہ راجح ہے ۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں مناولہ اصطلاحی کے اثبات کے لیے کوئی صریح دلیل نہیں ہے اس لیے استدلال کے دائرے کووسیع کرنے کے لیے مکاتبہ کا ذکر کیا ہے۔جومسند احادیث ذکر فرمائی ہیں۔وہ مکاتبہ کے لیے صریح دلیل ہیں۔اصل مقصود ان سے مناولہ کااثبات ہے۔واللہ اعلم۔اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مناولہ اور مکاتبہ کے جواز پر دلائل ذکر کیے ہیں۔1۔ایک یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصاحف کی چند ایک نقلیں تیار کرکے مختلف بلادمیں ارسال فرمائیں اور ہدایات دیں کہ انھی کے مطابق تلاوت کی جائے ،جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ارسال کتب بھی ایک معتبر طریقہ ہے۔جب قرآن مجید کے متعلق مکاتبت کا طریقہ حجت ہوسکتا ہے تو حدیث کے بارے میں توبدرجہ اولیٰ معتبر ہونا چاہیے۔2۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اسلاف میں بعض نامور حضرات اس کے قائل ہیں،ان میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،یحییٰ بن سعید اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں۔3۔تیسری دلیل یہ ہے کہ بعض اہل حجاز(امام حمیدی) نے مناولہ کےمتعلق ایک روایت پیش کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طریقہ مناولت جائزہے۔روایت یہاں مختصر ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے آئندہ مفصل بیان کریں گے۔اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر لشکر کو ایک خط دیاتھا اورہدایت فرمائی تھی کہ فلاں مقام پر پہنچ کر اسے کھولنا ہے اور ساتھیوں کوپڑھ کرسنانا ہے،چنانچہ وہاں پہنچ کر جب خظ کھولا گیا تو اس میں لکھا تھا:سرزمین نخلہ جو مکہ اورطائف کے درمیان ہے،اترکرقریش کا حال معلوم کرکے ہمیں اس سے مطلع کیا جائے۔اس سے مناولہ کااثبات ہوگیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر لشکر کو صرف تحریر کردی،اسے نہ پڑھ کرسنایا اور نہ اس کامضمون ہی بتایا،البتہ ہدایات دیں،لہذا یہ مناولہ مقرون بالاجازہ ہے نیز اس میں مکاتبہ بھی اثبات ہے۔
اور حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ نے مصاحف ( یعنی قرآن ) لکھوائے اور انھیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ( کتابت ) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر ( قاصد سے ) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاو اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ ﷺ کا حکم تھا وہ انھیں بتلایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور اس سے فرمایا: ’’یہ خط بحرین کے گورنر کو پہنچا دے۔‘‘ پھر حاکم بحرین نے اس کو کسریٰ تک پہنچا دیا۔ کسریٰ نے اسے پڑھ کر چاک کر دیا۔ راوی (ابن شہاب) نے کہا: میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے کہا: (اس واقعے کو سن کر) رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ وہ ہر طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث بیان فرمانے کے لیے مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ باب مناولہ اورمکاتبہ کے اثبات کے لیے ہے۔ اس حدیث سے مناولہ بایں طور پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکتوب گرامی دیا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے گورنرکوپہنچادیں اور اسے بتائیں کہ اسے ایران کے بادشاہ کسریٰ تک پہنچادے، حالانکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ خود مکتوب پڑھا اور نہ ہی سنا۔ یہ اگرچہ اصطلاحی مناولہ نہیں، تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اثبات کے لیے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوتی ہے۔ اور مکاتبہ کا انطباق تو بالکل ظاہر ہے۔ (فتح الباري: 205/1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مصنف نے عنوان میں دوامور کا ذکر کیا تھا: مناولہ اورمکاتبہ، پھر پیش کردہ حدیث سے عنوان کا دوسرا جز ثابت کیا جس سے جز اول کا ثبوت بطریق اولیٰ نکل آیا ہے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد شاہان عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرمائے، حدیث میں مذکورہ خط بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس خط کو آپ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کیا تاکہ وہ بحرین کے گورنر کے ذریعے سے شاہ فارس کسریٰ کو پہنچادیں۔ یہ زمانہ خسرو پرویز کا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا حرف بحرف پوری ہوئی، چنانچہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا اور وہ خود خطرناک زہر کھانے کے بعد ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد سلطنت کے معاملات اس کی بیٹی کے سپرد کیے گئے، وہ اس وسیع سلطنت کاانتظام نہ کرسکی، بالآخر طوائف الملوکی شروع ہوگئی اور سلطنت کانام ونشان تک مٹ گیا۔ (شرح الکرماني: 22/2)اس حدیث سے اہل علم کی علمی باتوں کوتحریر کر کے دیگر ممالک ارسال کرنے کا ثبوت ملتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلم حکومت سے اعلان جنگ سے پہلے اسے دین اسلام کی دعوت دی جائے، اگر وہ بے ادبی اورگستاخی کریں تو ان کے خلاف بددعا کی جائے۔ خبرواحد کی حجیت کا ثبوت بھی اس حدیث سے ملتا ہے۔ ( شرح الکرماني: 22/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے مصاحف کی کتابت کرائی اور انہیں چاروں طرف بھیج دیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر، یحییٰ بن سعید اور امام مالک کے نزدیک یہ مکاتبہ جائز ہے۔ بعض اہل حجاز نے مناولہ کے جواز پر نبی ﷺ کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے جبکہ آپ نے امیر لشکر کو ایک مکتوب دیا اور تاکید فرمائی کہ فلاں مقام تک پہنچنے سے قبل تم نے اسے پڑھنا نہیں، جب وہ اس مقام پر پہنچ گئے تو انہوں نے وہ مکتوب لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور انہیں آپ کے حکم کی اطلاع دی۔
حدیث ترجمہ:
اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ (شاہ ایران) کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا (راوی کہتے ہیں) اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے (اس کے بعد) مجھ سے کہا کہ (اس واقعہ کو سن کر) رسول اللہ ﷺ نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ ( بھی چاک شدہ خط کی طرح ) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول کی دعا کا اثر ظاہر کردیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah bin Abbas (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) gave a letter to a person and ordered him to go and deliver it to the Governor of Bahrain. (He did so) and the Governor of Bahrain sent it to Chousroes, who read that letter and then tore it to pieces. (The sub-narrator (Ibn Shihab (RA)) thinks that Ibn Al-Musaiyab said that Allah's Apostle (ﷺ) invoked Allah against them (saying), "May Allah tear them into pieces, and disperse them all totally.)"