باب: ( جہری نمازوں میں ) بالجہر آمین کہنے کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The saying of 'Amin')
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6402.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، بلاشبہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافق ہو جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“
تشریح:
(1) دعا کے بعد آمین کہنے کی وہی حیثیت ہے جو خط پر مہر لگانے کی ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’یہود جتنا سلام اور آمین کہنے پر تم سے جلتے ہیں اتنا کسی بات پر نہیں جلتے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة: 288/1) ایک روایت میں ہے: ’’یہودی تمہاری آمین پر بہت جلتے ہیں، اس لیے تم بکثرت آمین کہا کرو۔‘‘ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 857) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: حدیث میں قاری سے مراد امام ہے کیونکہ وہ نماز میں قراءت کرتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد مطلق طور پر پڑھنے والا ہو۔ (فتح الباري: 240/11) بہرحال ''آمین'' کے معنی ہیں: قبول فرما۔ یہ لفظ گویا مفصل دعا کے بعد مختصر طور پر انہیں دعاؤں کی تکرار ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ آمین جیسے پاکیزہ ادب سے کنارہ کش نہ ہوں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6173
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6402
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6402
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6402
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، بلاشبہ اس وقت فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ موافق ہو جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) دعا کے بعد آمین کہنے کی وہی حیثیت ہے جو خط پر مہر لگانے کی ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’یہود جتنا سلام اور آمین کہنے پر تم سے جلتے ہیں اتنا کسی بات پر نہیں جلتے۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة: 288/1) ایک روایت میں ہے: ’’یہودی تمہاری آمین پر بہت جلتے ہیں، اس لیے تم بکثرت آمین کہا کرو۔‘‘ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 857) (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: حدیث میں قاری سے مراد امام ہے کیونکہ وہ نماز میں قراءت کرتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد مطلق طور پر پڑھنے والا ہو۔ (فتح الباري: 240/11) بہرحال ''آمین'' کے معنی ہیں: قبول فرما۔ یہ لفظ گویا مفصل دعا کے بعد مختصر طور پر انہیں دعاؤں کی تکرار ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ آمین جیسے پاکیزہ ادب سے کنارہ کش نہ ہوں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ زہری نے بیان کیا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ اس وقت ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں اور جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہوتی ہے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئيے جاتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
جہری نمازوں میں آیت ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ پر بلند آواز سے آمین کہنا امت کے سواد اعظم کاعمل ہے مگر برادران احناف کو اس سے اختلاف ہے اس سلسلے میں مقتدائے اہلحدیث حضرت مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مقالہ پیش خدمت ہے امید ہے کہ قارئین کرام اس مقالہ کو بغور مطالعہ فرماتے ہوئے حضرت مولانا مرحوم کے لئے اور مجھ ناچیز خادم کے لئے بھی دعا ئے خیر کریں گے۔ اہل حدیث کا مذہب ہے کہ جب امام اونچی قراءت پڑھے تو بعد ولا الضالین کے (امام) اور مقتدی بلند آواز سے آمین کہیں جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا تَلَا {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} قَالَ: «آمِينَ»، حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ رواہ أبو داود وابن ماجة وقال حتیٰ یسمعها أھل الصف الأول فیرتج بھا المسجد(المنتقیٰ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ﴿غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ پڑھتے تو آمین کہتے ایسی کہ پہلی صف والے سن لیتے پھر سب لوگ بیک آواز میں آمین کہتے تو تما م مسجد آواز سے گونج جاتی۔ اس مسئلہ نے اپنی قوی ثبوت کی وجہ سے بعض محققین علمائے حنفیہ کو بھی اپنا قائل بنا لیا۔ چنانچہ مولانا عبد الحی صاحب لکھنؤی مرحوم شرح وقایہ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں۔ قد ثبت الجهر من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بأسانید متعددة یقوي بعضها بعضاً في سنن ابن ماجة والنسائي وأبي داود وجامع الترمذي وصحیح ابن حبان وکتاب الأم للشافعي وغیرها وعن جماعة من أصحابه براویة ابن حبان في کتاب الثقات وغیرہ ولھذا أشار بعض أصحابنا کابن الھمام في فتح القدیر وتلمیذہ ابن امیر الحاج في حلیة المصلي شرح منیة المصلی إلی قوة روایة۔ (حاشیہ شرح وقایۃ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد سندوں کے ساتھ آمین بالجہر کہنا ثابت ہے وہ ایسی سندیں ہیں کہ ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں جو ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد، ترمذی، صحیح ابن حبان، امام شافعی کی کتاب الام وغیرہ میں موجود ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بھی ابن حبان کی روایت سے ثابت ہے اسی واسطے ہمارے بعض علماء مثلاً ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور ان کے شاگرد ابن امیر الحاج نے حلیۃ المصلی شرح منیہ المصلی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آمین بالجہر کا ثبوت باعتبار روایات کے قوی ہے۔ (آخر میں یہی) شیخ ابن ہمام شارح ہدیہ فتح القدیرمسئلہ ھذا آمین بالجہر میں بالکل اہلحدیث کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں وَلَوْ كَانَ إلَيَّ فِي هَذَا شَيْءٌ لَوَفَّقْت بِأَنَّ رِوَايَةَ الْخَفْضِ يُرَادُ بِهَا عَدَمُ الْقَرْعِ الْعَنِيفِ، وَرِوَايَةَ الْجَهْرِ بِمَعْنَى قَوْلِهَا فِي زِبْرِ الصَّوْتِ وَذَيْلِهِ يَدُلُّ عَلَى هَذَا مَا فِي ابْنِ مَاجَهْ «كَانَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذَا تَلَا {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} قَالَ آمِينَ حَتَّى يُسْمِعَ مَنْ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ»(فتح القدیر نولکشورص:117) ”اگر مجھے اس امر میں اختیار ہو یعنی میری رائے کوئی شے ہوتو میں اس میں موافقت کروں کہ جو روایت آہستہ والی ہے اس سے تو یہ مراد ہے کہ بہت زور سے نہ چلاتے تھے اور جہر کی آواز سے مراد گونجتی ہوئی آواز ہے۔ میری اس توجیہ پر ابن ماجہ کی روایت دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ولاالضالین پڑھتے تو آمین کہتے ایسی کہ پہلی صف والے سن لیتے تھے پھر دوسرے لوگوں کی آواز سے مسجد گونج جاتی تھی۔“ اظہار شکر: اہل حدیث کو فخر ہے کہ ان کے مسائل قرآن وحدیث سے ثابت ہوکر ائمہ سلف کے معمول بہ ہونے کے علاوہ صوفیائے کرام میں سے مولانا مخدوم جہانی محبوب سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس اللہ سرہ العزیز بھی ان کی تائید میں ہیں۔ چنانچہ ان کی کتاب غنیۃ الطالبین کے دیکھنے والوں پر مخفی نہیں کہ حضرت ممدوح نے آمین رفع الیدین کو کس وضاحت سے لکھا ہے۔ گدایاں رازیں معنی خبر نیست کہ سلطان جہاں بامااست امروز پس صوفیائے کرام کی خدمت میں عموماً اور خاندان قادریہ کی جناب میں خصوصا بڑے ادب سے عرض ہے کہ وہ ان دونوں سنتوں کو رواج دینے میں دل وجان سے سعی کریں اور اگر خود نہ کریں تو ان کے رواج دینے والے اہل حدیث سے دلی محبت اور اخلاص رکھیں۔ کیونکہ۔ پائے سگ بوسیدہ مجنوں خلق گفت ایں چہ بود گفت مجنوں ایں سگے درکوئے لیلیٰ رفتہ بود حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم یہاں لکھتے ہیںکہ ہر دعا کے بعد دعا کرنے والے اور سننے والوں سب کوآمین کہنا مستحب ہے۔ ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے کہ یہودی جتنا سلام اور آمین پر تم سے جلتے ہیں اتنا کسی بات پر نہیں جلتے۔ دوسرے روایت میں ہے کہ ثم آمین کہتے ہیں تو وہ برامانتے ہیں۔ لڑنے پر مستعد ہوتے ہیں، گویا یہودیوں کی پیروی کرتے ہیں۔ (وحیدی) اللہ پاک علماء کرام کو سمجھ دے کہ آج کے نازک دور میں وہ امت کو ایسے اختلاف پر لڑنے جھگڑنے سے باز رہنے کی تلقین کریں آمین۔ اوپر والا مقالہ حضرت الاستاذ مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مسلک اہل حدیث کا اقتباس ہے۔ (راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "When the Imam says 'Amin', then you should all say 'Amin', for the angels say 'Amin' at that time, and he whose 'Amin' coincides with the 'Amin' of the angels, all his past sins will be forgiven."