Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The superiority of saying "La ilaha ill-Allah")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6404.
حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جس نے دس مرتبہ یہ کلمہ کہا اور وہ ایسا ہوگا اس نے اولاد اسماعیل سے ایک غلام آزاد کیا (راوی حدیث) حضرت عمر بن ابی زائدہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن ابو سفر نے بیان کیا، ان سے امام شعبی نے ان سے ربیع بن خثیم نے یہی مضمون بیان کیا تو میں نے ربیع سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: عمرو بن میمون سے۔ پھر میں عمرو بن میمون کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ابن ابی یعلی سے۔ میں ابن ابی یعلی کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ابو ایوب انصاری سے اور وہ اسے نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں ابراہیم بن یوسف اپنے باپ سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ ابو اسحاق سے انہوں نےکہا: مجھے عمرو بن میمون نے بیان کیا وہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے، وہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے یہی حدیث بیان کی موسٰی بن اسماعیل نے کہا: ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا داود بن ابی ہند سے ان سے عامر شعبی نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے نبی ﷺ سے اس کو نقل کیا۔ اسماعیل نے شعبی سے انہوں نے ربیع بن خثیم سے موقوفاً ان کا قول نقل کیا ہےآدم بن ابی ایاس نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے بلال بن یساف سے سنا، وہہ ربیع بن خثیم اور عمرو بن میمون سے بیان کرتے ہیں دونوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ان کا قول بیان کیا ہے اعمش اور حصین نے ہلال سے، انہوں نے ربیع سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے موقوفاً بیان کیا ہےابو محمد حضرمی نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے نقل کیا ہے: ”وہ ایسے ہے جیسے اس نے اسماعیل ؑ کی اولاد سے ایک گردن آزاد کی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں: اور صحیح بات ہے کہ یہ عمرو کا قول ہے۔
تشریح:
(1) یہ کلمۂ توحید ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس کلمے کو ایک دن میں کم از کم سو مرتبہ پڑھ لیا کریں تو گناہوں کے کفارہ کے علاوہ عقیدۂ توحید اس قدر مضبوط ہو جائے گا کہ اسے پڑھنے والے توحید کی برکت سے ایک خاص ایمانی قوت محسوس کریں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: بعض روایات میں ہے کہ شام کے وقت یہ وظیفہ کرنے والے کو بھی یہی اجر ملے گا۔ (2) حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجروثواب ہر شخص کو ملے گا جو اس وظیفے کو حرز جان بنائے گا، خواہ اسے مسلسل پڑھے یا متفرق طور پر وقفے وقفے سے ادا کرے۔ شروع دن میں پڑھے یا دن کے آخری حصے میں ادا کرے لیکن بہتر یہ ہے کہ دن کے آغاز میں یہ کلمہ سو مرتبہ مسلسل پڑھے تاکہ سارا دن شیطان سے حفاظت میں رہے۔ اسی طرح رات کے آغاز میں اس عمل کو دہرائے تاکہ تمام رات شیطانی اثرات سے محفوظ رہے۔ (فتح الباري: 246/11) (3) ہمارے رجحان کے مطابق مسنون اذکار میں اس قدر برکات و فوائد ہیں کہ ان کے ساتھ مزید اذکار پیوند کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، پھر اپنے خود ساختہ اذکار باعث ثواب بھی نہیں ہوتے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں یہ وظیفہ صبح کی نماز کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے اور اس میں بيده الخير کا اضافہ ہے۔ (سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3799) لیکن اس کی سند عطیہ عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6175
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6404
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6404
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6404
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جس نے دس مرتبہ یہ کلمہ کہا اور وہ ایسا ہوگا اس نے اولاد اسماعیل سے ایک غلام آزاد کیا (راوی حدیث) حضرت عمر بن ابی زائدہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن ابو سفر نے بیان کیا، ان سے امام شعبی نے ان سے ربیع بن خثیم نے یہی مضمون بیان کیا تو میں نے ربیع سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: عمرو بن میمون سے۔ پھر میں عمرو بن میمون کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ابن ابی یعلی سے۔ میں ابن ابی یعلی کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ابو ایوب انصاری سے اور وہ اسے نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں ابراہیم بن یوسف اپنے باپ سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ ابو اسحاق سے انہوں نےکہا: مجھے عمرو بن میمون نے بیان کیا وہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے، وہ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے یہی حدیث بیان کی موسٰی بن اسماعیل نے کہا: ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا داود بن ابی ہند سے ان سے عامر شعبی نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے نبی ﷺ سے اس کو نقل کیا۔ اسماعیل نے شعبی سے انہوں نے ربیع بن خثیم سے موقوفاً ان کا قول نقل کیا ہےآدم بن ابی ایاس نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے بلال بن یساف سے سنا، وہہ ربیع بن خثیم اور عمرو بن میمون سے بیان کرتے ہیں دونوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ان کا قول بیان کیا ہے اعمش اور حصین نے ہلال سے، انہوں نے ربیع سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے موقوفاً بیان کیا ہےابو محمد حضرمی نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے نقل کیا ہے: ”وہ ایسے ہے جیسے اس نے اسماعیل ؑ کی اولاد سے ایک گردن آزاد کی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں: اور صحیح بات ہے کہ یہ عمرو کا قول ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ کلمۂ توحید ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اس کلمے کو ایک دن میں کم از کم سو مرتبہ پڑھ لیا کریں تو گناہوں کے کفارہ کے علاوہ عقیدۂ توحید اس قدر مضبوط ہو جائے گا کہ اسے پڑھنے والے توحید کی برکت سے ایک خاص ایمانی قوت محسوس کریں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: بعض روایات میں ہے کہ شام کے وقت یہ وظیفہ کرنے والے کو بھی یہی اجر ملے گا۔ (2) حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجروثواب ہر شخص کو ملے گا جو اس وظیفے کو حرز جان بنائے گا، خواہ اسے مسلسل پڑھے یا متفرق طور پر وقفے وقفے سے ادا کرے۔ شروع دن میں پڑھے یا دن کے آخری حصے میں ادا کرے لیکن بہتر یہ ہے کہ دن کے آغاز میں یہ کلمہ سو مرتبہ مسلسل پڑھے تاکہ سارا دن شیطان سے حفاظت میں رہے۔ اسی طرح رات کے آغاز میں اس عمل کو دہرائے تاکہ تمام رات شیطانی اثرات سے محفوظ رہے۔ (فتح الباري: 246/11) (3) ہمارے رجحان کے مطابق مسنون اذکار میں اس قدر برکات و فوائد ہیں کہ ان کے ساتھ مزید اذکار پیوند کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، پھر اپنے خود ساختہ اذکار باعث ثواب بھی نہیں ہوتے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں یہ وظیفہ صبح کی نماز کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے اور اس میں بيده الخير کا اضافہ ہے۔ (سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3799) لیکن اس کی سند عطیہ عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الملک بن عمر و نے، کہا کہ ہم سے عمر بن ابی زائد نے، ان سے ابو اسحاق سبیعی نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس نے یہ کلمہ دس مرتبہ پڑھ لیا وہ ایسا ہوگا جےسے اس نے ایک عربی غلام آزاد کیا۔ اسی سند سے عمر بن ابی زائدہ نے بیان کیا کہ ہم سے عبد اللہ بن ابی السفر نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے ربیع بن خثیم نے یہی مضمون تو میں نے ربیع بن خثیم سے پوچھا کہ تم نے کس سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ عمرو بن میمون اودی سے۔ پھر میں عمرو بن میمون کے پاس آیا اور ان سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابن ابی لیلیٰ سے۔ ابن ابی لیلیٰ کے پاس آیا اور پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابوایوب انصاری ؓ سے، وہ یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے تھے اور ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے، ان سے ابو اسحاق سبیعی نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے ابو ایوب انصاری ؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث نقل کی۔ اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے داؤد بن ابی ہند نے، ان سے عامر شعبی نے، ان سے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے ابو ایوب ؓ نے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔ اور اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے ربیع نے موقوفاً ان کا قول نقل کیا۔ اور آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد الملک بن میسرہ نے بیان کیا، کہا میں نے ہلال بن یساف سے سنا، ان سے ربیع بن خثیم اور عمرو بن میمون دونوں نے اور ان سے ابن مسعود ؓ نے۔ اور اعمش اور حصین دونوں نے ہلال سے بیان کیا، ان سے ربیع بن خثیم نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود ؓ نے، یہی حدیث روایت کی۔ اور ابو محمد حضرمی نے ابوایوب ؓ سے، انہوں نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً اسی حدیث کو روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
سند میں اسماعیل بن ابی خالد والا جو اثر نقل ہوا ہے اسے حسین مروزی نے زیادات زہد میں وصل کیا مگر زیادات میں پہلے یہ روایت موقوفاً ربیع سے نقل کی اس کے اخیر میں یہ ہے۔ شعبی نے کہا میں نے ربیع سے پوچھا تم نے یہ کس سے سنا؟ انہوں نے کہا عمرو بن میمون سے۔ میں نے ان سے ملا اور پوچھا، انہوں نے کہا میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے سنا، میں ان سے ملا اور پوچھا تم یہ حدیث کس سے روایت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، کلمہ لا إلٰه الا اللہ وحدہ الخ بڑی فضیلت والا کلمہ ہے۔ بعض روایتوں میں وله الحمد کے بعد یحیی ویمیت اور بعض میں غیرك الخ کے لفظ زیادہ آئے ہیں۔ یہ کلمہ گنہگاروں کے لئے اکسیر اعظم ہے۔ اگر روزانہ کم سے کم سوبار اس کلمہ کو پڑھ لیا کریں تو گناہوں سے کفارہ کے علاوہ توحید میں عقیدہ اس قدر مضبوط وپختہ ہو جائے گا کہ وہ شخص توحید کی برکت سے اپنے اندر ایک خاص ایمانی طاقت محسوس کرے گا۔ راقم الحروف خادم محمد داؤد رازنے اپنی حقیر عمر میں ایسے کئی بزرگو ں کی زیارت کی ہے جن کی ایمانی طاقت کا میں اندازہ نہیں کر سکا۔ جن میں سے ایک بمبئی کے مشہور بزرگ مہاجر مکہ حضرت حاجی منشی علیم اللہ صاحب بھی تھے جو مکہ ہی کی سرزمین میں آرام کر رہے ہیں۔ غفر اللہ له و أدخله جنة الفردوس۔ آمین۔ ابومحمد حضرمی کی روایت کو امام احمد اور جرجانی نے وصل کیا ہے۔ بعض نسخوں میں یہاں اتنی عبارت زائد ہے قال أبو عبد اللہ والصحیح قول عمرو یعنی حضرت امام بخاری نے کہا کہ عمرو کی روایت صحیح ہے حالانکہ اوپر عمرو کی روایت کوئی نہیں گزری بلکہ عمربن زائدہ کی ہے۔ حافظ ابوذر نے کہا عمر بغیر واؤ کے صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated `Amr bin Maimun: Whoever recites it (i.e., the invocation in the above Hadith (412) ten times will be as if he manumitted one of Ishmael's descendants. Abu Aiyub narrated the same Hadith from the Prophet (ﷺ) saying, "(Whoever recites it ten times) will be as if he had manumitted one of Ishmael's descendants".