باب: اللہ پاک تبارک وتعالیٰ کے ذکر کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: The superiority of Dhikr of Allah 'Azza wa Jall)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6408.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو اہل ذکر کو تلاش کرتے ہوئے راستوں میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کے ذکر میں مصروف پالیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں: آؤ تمہارا مطلب حل ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ اپنے پروں کے ذریعے سے انہیں گھیر لیتے ہیں اور آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں“۔ آپ نے فرمایا: ان کا رب عزوجل ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں خوب جانتا ہے: میرے بندے کیا کہتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں: وہ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری کبریائی بیان کرتے ہیں۔ تیری حمد وثنا کرتے ہیں اور تیری زندگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں پھر اللہ ان سے پوچھتا ہے: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں؛ نہیں اللہ کی قسم! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالٰی فرماتا ہے: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر ان کی کیفیت کیسی ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو وہ تیری خوب عبادت کریں اور تیری خوب شان وعظمت بیان کریں تیری بہت زیادہ تسبیح کریں۔ اللہ تعالٰی ان سے پوچھتا ہے: وہ مجھ سے کیا مانگ رہے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیِں: وہ تجھ سے جنت کے طالب ہیں۔ اللہ تعالٰی پوچھتا ہے: کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: نہیں، اللہ کی قسم اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ پوچھتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر ان کی کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس کی بہت زیادہ حرص وخواہش اور رغبت کریں۔ اللہ تعالٰی دریافت کرتا ہے وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں: جہنم سے وہ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: ”نہیں اللہ کی قسم اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا وہ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: ا گر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس سے بہت دور بھاگیں اور اس سے بہت زیادہ ڈریں گے“ آپ ﷺ نے کہا: ”اللہ تعالٰی فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے: ان میں فلاں شخص ایسا ہے جو ان سے نہیں بلکہ وہ تو اپنی کسی ضرورت کے تحت ان میں آیا تھا اللہ تعالٰی نے فرمایا: وہ ایسے ہم نشین ہیں جن میں بیٹھنے والا بھی محروم ونامراد نہیں رہتا“ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سےبیان کیا ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع ذکر نہیں کیا۔ سہیل نے بھی اس حدیث کو اپنے والد ابو صالح سے روایت کیا ہے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) ایک روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں نے انہیں بخش دیا، انہوں نے جو مانگا میں نے دے دیا اور انہوں نے جس چیز سے پناہ طلب کی، میں نے انہیں اس سے پناہ دے دی۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6839 (2689)) (2) اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین تھے۔ صحبت کی عظیم تاثیر ہے کہ نیک لوگوں کے ہم نشین بھی نیک بخت ہوتے ہیں، لہذا ہمیں چاہیے کہ نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے ان زندیقوں کی تردید ہوتی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں علانیہ طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ تم اپنے رب کو مرتے دم تک نہیں دیکھ سکتے۔ (مسند أحمد: 324/5، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 2312، و فتح الباري: 256/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6179
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6408
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6408
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6408
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب کچھ لوگ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ہاں فرشتوں کے پاس ان کا ذکر خیر کرتا ہے۔'' (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6855 (2700)) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے راستے میں محو سفر تھے، جب آپ جُمدان نامی پہاڑ کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ''چلتے جاؤ یہ جُمدان ہے۔'' پھر فرمایا: ''مُفردون بازی لے گئے۔'' صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! مُفردون کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ''اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں۔'' (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث 6808 (2676)) قرآن کریم میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔'' (العنکبوت: 29/45) اللہ کے ذکر سے مراد زبان سے ایسے الفاظ ادا کرنا ہے جو اس کی تسبیح و تحمید اور بزرگی پر مشتمل ہوں۔ اگر ان کی ادائیگی کے وقت ان کے معنی بھی ذہن میں ہوں تو ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ (فتح الباری: 11/250، 251)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو اہل ذکر کو تلاش کرتے ہوئے راستوں میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ جب وہ کچھ لوگوں کو اللہ کے ذکر میں مصروف پالیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں: آؤ تمہارا مطلب حل ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ اپنے پروں کے ذریعے سے انہیں گھیر لیتے ہیں اور آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں“۔ آپ نے فرمایا: ان کا رب عزوجل ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں خوب جانتا ہے: میرے بندے کیا کہتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں: وہ تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری کبریائی بیان کرتے ہیں۔ تیری حمد وثنا کرتے ہیں اور تیری زندگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں پھر اللہ ان سے پوچھتا ہے: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں؛ نہیں اللہ کی قسم! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالٰی فرماتا ہے: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر ان کی کیفیت کیسی ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو وہ تیری خوب عبادت کریں اور تیری خوب شان وعظمت بیان کریں تیری بہت زیادہ تسبیح کریں۔ اللہ تعالٰی ان سے پوچھتا ہے: وہ مجھ سے کیا مانگ رہے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیِں: وہ تجھ سے جنت کے طالب ہیں۔ اللہ تعالٰی پوچھتا ہے: کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: نہیں، اللہ کی قسم اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ پوچھتا ہے: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر ان کی کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس کی بہت زیادہ حرص وخواہش اور رغبت کریں۔ اللہ تعالٰی دریافت کرتا ہے وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ وہ عرض کرتے ہیں: جہنم سے وہ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: ”نہیں اللہ کی قسم اے رب! انہوں نے اسے نہیں دیکھا وہ پوچھتا ہے: کیا انہوں نے اسے دیکھا ہے؟ اگر وہ اسے دیکھ لیں تو پھر کیسی کیفیت ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: ا گر وہ اسے دیکھ لیں تو وہ اس سے بہت دور بھاگیں اور اس سے بہت زیادہ ڈریں گے“ آپ ﷺ نے کہا: ”اللہ تعالٰی فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے: ان میں فلاں شخص ایسا ہے جو ان سے نہیں بلکہ وہ تو اپنی کسی ضرورت کے تحت ان میں آیا تھا اللہ تعالٰی نے فرمایا: وہ ایسے ہم نشین ہیں جن میں بیٹھنے والا بھی محروم ونامراد نہیں رہتا“ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سےبیان کیا ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع ذکر نہیں کیا۔ سہیل نے بھی اس حدیث کو اپنے والد ابو صالح سے روایت کیا ہے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں نے انہیں بخش دیا، انہوں نے جو مانگا میں نے دے دیا اور انہوں نے جس چیز سے پناہ طلب کی، میں نے انہیں اس سے پناہ دے دی۔‘‘ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6839 (2689)) (2) اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی بہت بڑی فضیلت ہے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم نشین تھے۔ صحبت کی عظیم تاثیر ہے کہ نیک لوگوں کے ہم نشین بھی نیک بخت ہوتے ہیں، لہذا ہمیں چاہیے کہ نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے ان زندیقوں کی تردید ہوتی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں علانیہ طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ تم اپنے رب کو مرتے دم تک نہیں دیکھ سکتے۔ (مسند أحمد: 324/5، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 2312، و فتح الباري: 256/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبد الحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابو صالح نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پا ليتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں۔ پھر ختم ہونے پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے....حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے....کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب وہ مجھے دیکھے ہوئے ہوتے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ (ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا لیکن اس کو مرفوع نہیں کیا۔ اور سہیل نے بھی اس کو اپنے والد ابو صالح سے روایت کیا، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
مجالس ذکر سے قرآن وحدیث کا پڑھنا پڑھانا۔ قرآن وحدیث کی مجالس وعظ منعقد کرنا بھی مراد ہے قرآن پاک خود ذکر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah 's Apostle (ﷺ) said, "Allah has some angels who look for those who celebrate the Praises of Allah on the roads and paths. And when they find some people celebrating the Praises of Allah, they call each other, saying, "Come to the object of your pursuit.' " He added, "Then the angels encircle them with their wings up to the sky of the world." He added. "(after those people celebrated the Praises of Allah, and the angels go back), their Lord, asks them (those angels)----though He knows better than them----'What do My slaves say?' The angels reply, 'They say: Subhan Allah, Allahu Akbar, and Alham-du-lillah, Allah then says 'Did they see Me?' The angels reply, 'No! By Allah, they didn't see You.' Allah says, How it would have been if they saw Me?' The angels reply, 'If they saw You, they would worship You more devoutly and celebrate Your Glory more deeply, and declare Your freedom from any resemblance to anything more often.' Allah says (to the angels), 'What do they ask Me for?' The angels reply, 'They ask You for Paradise.' Allah says (to the angels), 'Did they see it?' The angels say, 'No! By Allah, O Lord! They did not see it.' Allah says, How it would have been if they saw it?' The angels say, 'If they saw it, they would have greater covetousness for it and would seek It with greater zeal and would have greater desire for it.' Allah says, 'From what do they seek refuge?' The angels reply, 'They seek refuge from the (Hell) Fire.' Allah says, 'Did they see it?' The angels say, 'No By Allah, O Lord! They did not see it.' Allah says, How it would have been if they saw it?' The angels say, 'If they saw it they would flee from it with the extreme fleeing and would have extreme fear from it.' Then Allah says, 'I make you witnesses that I have forgiven them."' Allah's Apostle (ﷺ) added, "One of the angels would say, 'There was so-and-so amongst them, and he was not one of them, but he had just come for some need.' Allah would say, 'These are those people whose companions will not be reduced to misery.' "