Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The example of this world in contrast with the Hereafter)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کا بیان اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ حدید میں فرمایا ۔ ” بلا شبہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل کود کی طرح ہے اور زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال اولاد کو بڑھا نے کی کوشش کا نام ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس کے سبزہ نے کاشتکاروں کو بھالیا ہے، پھر جب اس کھیتی میں ابھار آتا ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ پک کر زرد ہوچکا ہے ۔ پھر وہ دانہ نکالنے کے لئے روندڈالا جاتا ہے ( یہی حال زندگی کا ہے ) اور آخرت میں کافروں کے لئے سخت عذاب ہے اور مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔
6415.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:’’جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو چلنا بھی دنیا ومافیھا سے بہتر ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اگر جنت میں چھڑی رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوڑے سے کم تر چیز دنیا وما فیھا کے برابر ہے۔ یہی حقیقت ایک دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال بس ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈبو کر نکال لے، پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس (انگلی) کو لگ کر آئی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7197 (2858)) مطلب یہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا اس قدر بے حقیقت اور بے حیثیت ہے جتنا کہ دریا کے مقابلے میں انگلی پر لگا ہوا پانی۔ (2) یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے ہے ورنہ دنیا کی آخرت کے مقابلے میں یہ نسبت بھی نہیں ہے۔ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب محدود اور متناہی اور اس کے مقابلے میں آخرت لامحدود اور لامتناہی ہے۔ محدود و متناہی اور لامحدود اور لامتناہی کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ جب حقیقت یہ ہے تو وہ شخص کس قدر محروم ہے جو دنیا حاصل کرنے کے لیے تو خوب محنت کرے مگر آخرت کی تیاری کے لیے اسے کوئی فکر نہ ہو۔ واللہ المستعان (3) اس سے بھی زیادہ وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک کان کٹے بکری کے مردہ بچے کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ایک درہم کے بدلے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟‘‘ صحابہ نے کہا: ہم تو اسے کسی قیمت پر خریدنا پسند نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنا ذلیل تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7418 (2957))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6187
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6415
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6415
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6415
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس آیت کریمہ کے مطابق دنیا کی حقیقت ایک کھیل تماشے کی سی ہے جس میں وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس میں انسان مال و دولت اور اولاد میں مشغول رہتا ہے اور ان سے دل لگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مثال اس بارش کو قرار دیا ہے جس سے نباتات اُگتی ہیں جو وقتی طور پر کاشتکار کو بھلی معلوم ہوتی ہیں بالآخر وہ بھس بن کر ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ مثال دنیا کے زوال اور آخرت کے دوام پر دلالت کرتی ہے، اس بنا پر دنیاوی معاملات سے خبردار اور اخروی امور کی رغبت دلائی گئی ہے، یعنی کفار کو آخرت میں سخت عذاب دیا جائے گا جبکہ اہل ایمان سے اللہ تعالیٰ خوش ہو کر انہیں معاف کر دے گا۔ واللہ المستعان
اس کا بیان اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ حدید میں فرمایا ۔ ” بلا شبہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل کود کی طرح ہے اور زینت ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال اولاد کو بڑھا نے کی کوشش کا نام ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس کے سبزہ نے کاشتکاروں کو بھالیا ہے، پھر جب اس کھیتی میں ابھار آتا ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ پک کر زرد ہوچکا ہے ۔ پھر وہ دانہ نکالنے کے لئے روندڈالا جاتا ہے ( یہی حال زندگی کا ہے ) اور آخرت میں کافروں کے لئے سخت عذاب ہے اور مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک دھوکے کا سامان ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:’’جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو چلنا بھی دنیا ومافیھا سے بہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اگر جنت میں چھڑی رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوڑے سے کم تر چیز دنیا وما فیھا کے برابر ہے۔ یہی حقیقت ایک دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال بس ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈبو کر نکال لے، پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس (انگلی) کو لگ کر آئی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7197 (2858)) مطلب یہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا اس قدر بے حقیقت اور بے حیثیت ہے جتنا کہ دریا کے مقابلے میں انگلی پر لگا ہوا پانی۔ (2) یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے ہے ورنہ دنیا کی آخرت کے مقابلے میں یہ نسبت بھی نہیں ہے۔ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب محدود اور متناہی اور اس کے مقابلے میں آخرت لامحدود اور لامتناہی ہے۔ محدود و متناہی اور لامحدود اور لامتناہی کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ جب حقیقت یہ ہے تو وہ شخص کس قدر محروم ہے جو دنیا حاصل کرنے کے لیے تو خوب محنت کرے مگر آخرت کی تیاری کے لیے اسے کوئی فکر نہ ہو۔ واللہ المستعان (3) اس سے بھی زیادہ وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک کان کٹے بکری کے مردہ بچے کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ایک درہم کے بدلے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟‘‘ صحابہ نے کہا: ہم تو اسے کسی قیمت پر خریدنا پسند نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنا ذلیل تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7418 (2957))
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:خوب جان لو! دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا۔۔۔دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل ؓ نے بیان کیا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو تھوڑا سا چلنا بھی دنیا وما فیھا سے بہتر ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA) : I heard the Prophet (ﷺ) saying, "A (small) place equal to an area occupied by a whip in Paradise is better than the (whole) world and whatever is in it; and an undertaking (journey) in the forenoon or in the afternoon for Allah's Cause, is better than the whole world and whatever is in it."