Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The Fitnah of wealth should be warded off)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ تغابن میں فرمایا کہ ” بلا شبہ تمہارے مال واولاد تمہارے لئے اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔
6435.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، بہترین سیاہ اونی کپڑوں کے بندے تباہ ہو گئے۔ اگر انھیں دیا جائےتو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔‘‘
تشریح:
مال و دولت کی بندگی یہ ہے کہ اس کی چاہت اور طلب میں بندہ ایسا گرفتار ہو کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور حلال و حرام کی حدود کا بھی پابند نہ رہے۔ جو لوگ درہم و دینار اور بہترین کپڑوں کے پجاری ہیں اور انہوں نے مال و دولت ہی کو اپنا معبود مطلوب بنا لیا ہے، اس حدیث میں ان سے بے زاری کا اعلان اور ان کے خلاف بددعا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی خیر و برکت سے محروم اور دور رہیں۔ قرآن کریم میں منافقین کا وصف ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ''اگر انہیں دنیا میں کچھ دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔''(التوبة: 58) ان لوگوں کو مال و دولت کے نشے نے اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ وہ فکر آخرت سے آزاد اور انہیں صرف دنیا بنانے اور مال جمع کرنے کی فکر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیاوی مفادات سمیٹنے کے لیے مسلمان ہوئے ہیں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6206
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6435
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6435
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6435
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس آیت کریمہ میں فتنے کا لفظ آزمائش کے لیے استعمال ہوا ہے۔ فتنے میں عام طور پر ایسی چیزوں سے آزمائش ہوتی ہے جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان سے اس کا دلی لگاؤ ہوتا ہے۔ یہ آزمائش آہستہ آہستہ اس طرح ہوتی ہے کہ دوسروں کو تو کیا بسا اوقات خود فتنے میں پڑے ہوئے انسان کو بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کس آزمائش میں پڑ چکا ہے۔ مال اور اولاد اس طرح آزمائش بن جاتی ہیں کہ بعض اوقات انسان ان کی محبت میں گرفتار ہو کر آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ اگر کوئی انہیں اپنے لیے ذخیرۂ آخرت بناتا ہے تو یہ چیزیں اس کے لیے اجر عظیم کا باعث ہیں جیسا کہ اس آیت کے آخر میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر امت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز باعث آزمائش ہوتی ہے۔ میری امت کی آزمائش مال و دولت کے ذریعے سے ہو گی۔'' (مسند احمد: 4/160) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ گرتے پڑتے آ رہے ہیں۔ آپ نے خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھایا اور مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔ (مسند احمد: 5/354)
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ تغابن میں فرمایا کہ ” بلا شبہ تمہارے مال واولاد تمہارے لئے اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، بہترین سیاہ اونی کپڑوں کے بندے تباہ ہو گئے۔ اگر انھیں دیا جائےتو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مال و دولت کی بندگی یہ ہے کہ اس کی چاہت اور طلب میں بندہ ایسا گرفتار ہو کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور حلال و حرام کی حدود کا بھی پابند نہ رہے۔ جو لوگ درہم و دینار اور بہترین کپڑوں کے پجاری ہیں اور انہوں نے مال و دولت ہی کو اپنا معبود مطلوب بنا لیا ہے، اس حدیث میں ان سے بے زاری کا اعلان اور ان کے خلاف بددعا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت اور اس کی خیر و برکت سے محروم اور دور رہیں۔ قرآن کریم میں منافقین کا وصف ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ''اگر انہیں دنیا میں کچھ دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔''(التوبة: 58) ان لوگوں کو مال و دولت کے نشے نے اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ وہ فکر آخرت سے آزاد اور انہیں صرف دنیا بنانے اور مال جمع کرنے کی فکر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیاوی مفادات سمیٹنے کے لیے مسلمان ہوئے ہیں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"یقیناً تمہارے اموال واولاد تمہارے لیے باعث آزمائش ہیں۔"
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبکر بن عیاش نے خبر دی، انہیں ابو حصین (عثمان بن عاصم) نے، انہیں ابوصالح ذکوان نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دینار ودرہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، سیاہ کملی کے بندے، تباہ ہو گئے کہ اگر انہیں دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
زمانہ رسالت میں ایسے بھی لوگ تھے جو دنیاوی مفاد کے تحت مسلمان ہو گئے تھے ان ہی کا یہ ذکر ہے ایسا اسلام بیکار محض ہے۔ جس سے محض دنیا حاصل کرنا مقصود ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Perish the slave of Dinar, Dirham, Qatifa (thick soft cloth), and Khamisa (a garment), for if he is given, he is pleased; otherwise he is dissatisfied."