Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The Fitnah of wealth should be warded off)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ تغابن میں فرمایا کہ ” بلا شبہ تمہارے مال واولاد تمہارے لئے اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔
6437.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اگر ابن آدم کے پاس مال کی بھری ہوئی وادی ہو تو وہ خواہش کرے گا کہ اتنا ہی مال اس کے پاس مزید ہو۔ انسان کی آنکھ مٹی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اور جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ یہ ارشادات قرآن سے ہیں یا نہیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ ارشادات منبر پر کہتے سنا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6208
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6437
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6437
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6437
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس آیت کریمہ میں فتنے کا لفظ آزمائش کے لیے استعمال ہوا ہے۔ فتنے میں عام طور پر ایسی چیزوں سے آزمائش ہوتی ہے جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان سے اس کا دلی لگاؤ ہوتا ہے۔ یہ آزمائش آہستہ آہستہ اس طرح ہوتی ہے کہ دوسروں کو تو کیا بسا اوقات خود فتنے میں پڑے ہوئے انسان کو بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کس آزمائش میں پڑ چکا ہے۔ مال اور اولاد اس طرح آزمائش بن جاتی ہیں کہ بعض اوقات انسان ان کی محبت میں گرفتار ہو کر آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ اگر کوئی انہیں اپنے لیے ذخیرۂ آخرت بناتا ہے تو یہ چیزیں اس کے لیے اجر عظیم کا باعث ہیں جیسا کہ اس آیت کے آخر میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر امت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز باعث آزمائش ہوتی ہے۔ میری امت کی آزمائش مال و دولت کے ذریعے سے ہو گی۔'' (مسند احمد: 4/160) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے کہ آپ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ گرتے پڑتے آ رہے ہیں۔ آپ نے خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھایا اور مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔ (مسند احمد: 5/354)
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ تغابن میں فرمایا کہ ” بلا شبہ تمہارے مال واولاد تمہارے لئے اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اگر ابن آدم کے پاس مال کی بھری ہوئی وادی ہو تو وہ خواہش کرے گا کہ اتنا ہی مال اس کے پاس مزید ہو۔ انسان کی آنکھ مٹی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اور جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ یہ ارشادات قرآن سے ہیں یا نہیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ ارشادات منبر پر کہتے سنا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"یقیناً تمہارے اموال واولاد تمہارے لیے باعث آزمائش ہیں۔"
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سنا، کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر انسان کے پاس مال (بھیڑ بکری) کی پوری وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اسے ویسی ہی ایک اور مل جائے اور انسان کی آنکھ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ سے توبہ کرتا ہے، وہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں یہ قرآن میں سے ہے یا نہیں۔ بیان کیا کہ میں نے ابن زبیر ؓ کو یہ منبر پر کہتے سنا تھا۔
حدیث حاشیہ:
سورۃ تکاثر کے نزول سے پہلے اس عبارت کو قرآن کی طرح تلاوت کیا جاتا رہا۔ پھر سورۃ تکاثر کے نزول کے بعد اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی۔ مضمون ایک ہی ہے انسان کے حرص اور طمع کا بیان ہے۔ احادیث ذیل میں مزید وضاحت موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "If the son of Adam had money equal to a valley, then he will wish for another similar to it, for nothing can satisfy the eye of Adam's son except dust. And Allah forgives him who repents to Him." Ibn 'Abbas (RA) said: I do not know whether this saying was quoted from the Qur'an or not. 'Ata' said, "I heard Ibn AzZubair saying this narration while he was on the pulpit."