باب: نبی کریم کا یہ فرمان کہ یہ دنیا کا مال بظاہر سرسبز وخوش گوار نظر آتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: "Wealth is green sweet.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ آل عمران : ۴میں ) فرمایا کہ انسانوں کو خواہشات کی تڑپ ، عورتوں ، بال ، بچوں ڈھیر وں سونے چاندی ، نشان لگے ہوئے گھوڑوں اور چوپایوں کھیتوں میں محبوب بنادی گئی ہے، یہ چند روزہ زندگانی کا سرماےہ ہے۔ حضرت عمر ؓنے کہا کہ اے اللہ! ہم تو سوااس کے کچھ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ جس چیز سے تو نے ہمیں زینت بخشی ہے اس پر ہم طبعی طور پر خوش ہوں۔ اے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ اس مال کو توحق جگہ پر خرچ کرائیو۔
6441.
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: ’’اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کے متعلق حرص، طمع اور لالچ سے خبردار کیا ہے کہ اس نیت سے جو مال حاصل ہو گا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو اس قسم کی طمع و لالچ سے بچاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا سے اسے اس طرح محفوظ رکھتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے جبکہ اسے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔‘‘ (مسند أحمد:428/5) (2) دراصل دنیا کی مال داری وہی بری ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے اور جس میں مشغول ہونے سے انسان کی آخرت کا راستہ کھوٹا ہو جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو جن لوگوں سے محبت ہوتی ہے انہیں اس طرح مال سمیٹنے سے بچاتا ہے جس طرح ہم اپنے مریضوں کو پانی سے پرہیز کراتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6212
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6441
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6441
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6441
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
آیت کریمہ میں جن چیزوں کا نام لیا گیا ہے، ان کی محبت انسان کے دل میں فطری طور پر جا گزیں ہے اور انہی چیزوں سے انسان کی اس دنیا میں آزمائش ہوتی ہے۔ لیکن ان چیزوں میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو بذات خود بری ہو کیونکہ ان سے محبت کرنا ایک فطری امر ہے اور فطری امر بذات خود برا نہیں ہوتا، البتہ بری چیز یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کے حصول اور ان کی محبت میں اس قدر گرفتار ہو جائے کہ اسے آخرت یاد ہی نہ رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی مال صحیح طریقے سے حاصل کرے اور اسے صحیح جگہ پر صرف کرے تو وہ مال فتنہ نہیں بنتا۔ اس دعا کا پس منظر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس طرح لکھا ہے: جب ایران فتح ہوا تو وہاں سے بہت سا مال بطور غنیمت لایا گیا۔ آپ نے فرمایا: اسے زمین پر ڈال کر ڈھانپ دیا جائے، پھر لوگوں کو جمع کیا اور اس سے کپڑا اٹھا کر انہیں دکھایا کہ وہاں زیورات، جواہرات اور دیگر بے شمار سازوسامان ہے۔ انہیں دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کی تعریف کی اور رونے لگے۔ لوگوں نے عرض کی: امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے یہ غنیمت کا مال مالکوں سے چھین کر ہمیں عطا فرمایا ہے، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت عمر نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس قوم کو یہ مالِ کثیر دیتا ہے تو وہ اس کی وجہ سے خونریزی اور حرام کو حلال جانتے ہیں، پھر مذکورہ دعا کی اور وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ سارا مال تقسیم نہ کر دیا اور اس سے کوئی چیز باقی نہ رہی۔ (فتح الباری: 11/312)
اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ آل عمران : ۴میں ) فرمایا کہ انسانوں کو خواہشات کی تڑپ ، عورتوں ، بال ، بچوں ڈھیر وں سونے چاندی ، نشان لگے ہوئے گھوڑوں اور چوپایوں کھیتوں میں محبوب بنادی گئی ہے، یہ چند روزہ زندگانی کا سرماےہ ہے۔ حضرت عمر ؓنے کہا کہ اے اللہ! ہم تو سوااس کے کچھ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ جس چیز سے تو نے ہمیں زینت بخشی ہے اس پر ہم طبعی طور پر خوش ہوں۔ اے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ اس مال کو توحق جگہ پر خرچ کرائیو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: ’’اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کے متعلق حرص، طمع اور لالچ سے خبردار کیا ہے کہ اس نیت سے جو مال حاصل ہو گا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو اس قسم کی طمع و لالچ سے بچاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا سے اسے اس طرح محفوظ رکھتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے جبکہ اسے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔‘‘ (مسند أحمد:428/5) (2) دراصل دنیا کی مال داری وہی بری ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے اور جس میں مشغول ہونے سے انسان کی آخرت کا راستہ کھوٹا ہو جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو جن لوگوں سے محبت ہوتی ہے انہیں اس طرح مال سمیٹنے سے بچاتا ہے جس طرح ہم اپنے مریضوں کو پانی سے پرہیز کراتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی محبت بہت دلفریب بنادی گئی ہے،یعنی عورتوں سے،بیٹوں سے۔۔۔"
حضرت عمر ؓنے فرمایا:"اے اللہ! ہم تو سوائےاس چیز کے کچھ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ جس چیز کو تو نے ہمارے لیے مزین کیا ہے،اس سے ہم طبعی طور پر خوش ہوں۔اے اللہ!میں دعا کرتا ہوں کہ میں اس مال کو اس کے حق میں خرچ کروں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھے عروہ اور سعید بن مسیب نے خبر دی، انہیں حکیم بن حزام نے، کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے مانگا تو آنحضرت ﷺ نے مجھے عطاء فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آنحضرت ﷺ نے پھر عطاء فرمایا۔ پھر میں نے مانگا اور آنحضرت ﷺ نے پھر عطاء فرمایا۔ پھر فرمایا کہ یہ مال۔ اور بعض اوقات سفیان نے یوں بیان کیا کہ (حکیم ؓ نے بیان کیا) اے حکیم! یہ مال سرسبز اور خوشگوار نظر آتا ہے پس جوشخص اسے نیک نیتی سے لے اس میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس شخص جیسا ہو جاتا ہے جو کھاتا جا تا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔
حدیث حاشیہ:
اوپر کا ہاتھ سخی کا ہاتھ اور نیچے کا ہاتھ صدقہ خیرات لینے والے کا ہاتھ ہے۔ سخی کا درجہ بہت اونچا ہے اورلینے والے کا نیچا۔ مگر آیت کریمہ ﴿لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى﴾(البقرة:264) کے تحت معطی کا فرض ہے کہ دینے والے کو حقیر نہ جانے اس پر احسان نہ جتلائے نہ اور کچھ ذھنی تکلیف دے ورنہ اس کے صدقہ کا ثواب ضائع ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hakim bin Hizam (RA) : I asked the Prophet (ﷺ) (for some money) and he gave me, and then again I asked him and he gave me, and then again I asked him and he gave me and he then said, "This wealth is (like) green and sweet (fruit), and whoever takes it without greed, Allah will bless it for him, but whoever takes it with greed, Allah will not bless it for him, and he will be like the one who eats but is never satisfied. And the upper (giving) hand is better than the lower (taking) hand."