باب: جو لوگ دنیا میں زیادہ مالدار ہیں وہی آخرت میں زیادہ
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The rich are in fact the poor)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود میں فرمایا ” جو شخص دنیاکی زندگی اور اس کی زینت کا طالب ہے تو ہم اس کے تمام اعمال کا بدلہ اسی دنیامیں اس کو بھرپور دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے لئے کسی طرح کی کمی نہیں کی جاتی یہی وہ لوگ ہیں جن کےلئے آخرت میں دوزخ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور جوکچھ انہوں نے اس دنیا کی زندگی میں کیا وہ ( آخرت کے حق میں ) بیکار ثابت ہوا اور جوکچھ ( اپنے خیال میں ) وہ کرتے ہیں سب بیکار محض ہے۔ “تشریح : کیونکہ انہوں نے آخرت کی بہبودی کے لئے تو کوئی کام نہ کیا تھا بلکہ یہی خیال رہا کہ لوگ اس کی تعریف کریں سو یہ مقصد ہوا اب آخرت میں کچھ نہیں رہا۔ ریا کاروں کایہی حال ہے، نیک کام وہ دنیا میں کرتے ہیں ( اخروی نتیجہ کے لحاظ سے ) وہ سب باطل ہیں۔
6443.
حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ہی جا رہے ہیں، اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھ کسی کے چلنے کو پسند نہیں کرتے ہوں گے، اس لیے میں چاند کے سائے میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ نے میری طرف توجہ فرمائی تو مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے کہا: ابوذر ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! آپ نے فرمایا: ’’ابوذر! آگے آجاؤ۔‘‘ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ جو لوگ دنیا میں زیادہ مال دار ہیں وہی قیامت کے دن نادار ہوں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دائیں، بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرے اور اسے اچھے کاموں میں صرف کرے۔‘‘ ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، آپ نے فرمایا: ’’یہاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ آپ نے مجھے ایک صاف میدان میں بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور آپ نے مجھے تاکید کی، یہاں بیٹھے رہو حتیٰ کہ میں تمہارے پاس واپس آؤں۔‘‘ پھر آپ پتھریلے میدان میں چلے گئے حتیٰ کہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور مجھ سے بہت دیر تک غائب رہے، پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے ہیں: ’’اگرچہ چوری کرے یا بدکاری کرے؟‘‘ جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہ ہوسکا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! اس پتھریلے میدان کی طرف آپ کس سے باتیں کر رہے تھے؟ میں نے کسی کو آپ سے گفتگو کرتے نہیں سنا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ حضرت جبریل ؑ تھے جو پتھریلے میدان کی ایک طرف مجھے ملے اور کہا: اپنی اُمت کو خوشخبری سنائیں کہ جو کوئی اس حال میں فوت ہو جائے کہ اس نے کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ بنایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا: اے جبریل ؑ ! اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پھر کہا: اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور بدکاری کی ہو؟ انھوں نے (جبریل نے) کہا: ہاں، اگرچہ اس نے شراب نوشی کی ہو۔‘‘ نضر نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبر دی، انھیں حبیب بن ابی ثابت، اعمش اور عبدالعزیز بن رفیع نے بتایا، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ ) نے کہا کہ ابوصالح نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایت بیان کی ہے وہ منقطع ہونے کی بناپر صحیح نہیں۔ ہم نے یہ بیان کر دیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہو جائے۔ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث ہی صحیح ہے۔ کسی نے امام بخاری ؓ سے پوچھا: عطا بن یسار نے بھی یہ حدیث ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے؟ انھوں نے کہا: وہ بھی منقطع ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں۔ صحیح حدیث حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے، اس لیے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کو نظر انداز کر دو۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؓ کہتے ہیں، ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کا مطلب ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث والا ہے: جب وہ مرتے وقت لا إلٰه إلا اللہ کہہ دے، یعنی توحید پر خاتمہ ہو۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ کیا تھا کہ آخرت کی دشوار گزار گھاٹیوں کو وہی لوگ عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے اور جو لوگ دنیا میں اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے، اس لیے اکثر صحابہ فقر و فاقے کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)) حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں آدم کا بیٹا ناپسند کرتا ہے: انسان موت کو ناپسند کرتا ہے، حالانکہ موت اہل ایمان کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور وہ قلت مال کو ناپسند کرتا ہے جبکہ قلت مال کا حساب کم ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 427/5) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں زیادہ مال دار لوگ قیامت کے دن اسی قدر زیادہ نادار ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنے مال آخرت بنانے کے بجائے اسے اپنی سج دھج اور ٹھاٹھ باٹھ میں خرچ کر دیا، اس لیے قیامت کے دن وہ درج ذیل آیت کا مصداق ہوں گے: ’’تم نے اپنی چیزیں دنیا کی زندگانی میں حاصل کر لیں اور تم نے ان سے فائدہ اٹھا لیا، اس لیے آج تمہیں ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘(الأحقاف: 20) یہی وجہ ہے کہ عموماً اللہ تعالیٰ کے نافرمان دنیاوی اعتبار سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6214
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6443
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6443
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6443
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود میں فرمایا ” جو شخص دنیاکی زندگی اور اس کی زینت کا طالب ہے تو ہم اس کے تمام اعمال کا بدلہ اسی دنیامیں اس کو بھرپور دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے لئے کسی طرح کی کمی نہیں کی جاتی یہی وہ لوگ ہیں جن کےلئے آخرت میں دوزخ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور جوکچھ انہوں نے اس دنیا کی زندگی میں کیا وہ ( آخرت کے حق میں ) بیکار ثابت ہوا اور جوکچھ ( اپنے خیال میں ) وہ کرتے ہیں سب بیکار محض ہے۔ “تشریح : کیونکہ انہوں نے آخرت کی بہبودی کے لئے تو کوئی کام نہ کیا تھا بلکہ یہی خیال رہا کہ لوگ اس کی تعریف کریں سو یہ مقصد ہوا اب آخرت میں کچھ نہیں رہا۔ ریا کاروں کایہی حال ہے، نیک کام وہ دنیا میں کرتے ہیں ( اخروی نتیجہ کے لحاظ سے ) وہ سب باطل ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک رات باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ہی جا رہے ہیں، اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہیں۔ میں نے (دل میں) کہا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھ کسی کے چلنے کو پسند نہیں کرتے ہوں گے، اس لیے میں چاند کے سائے میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ آپ نے میری طرف توجہ فرمائی تو مجھے دیکھ کر فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے کہا: ابوذر ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! آپ نے فرمایا: ’’ابوذر! آگے آجاؤ۔‘‘ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ جو لوگ دنیا میں زیادہ مال دار ہیں وہی قیامت کے دن نادار ہوں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے دائیں، بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرے اور اسے اچھے کاموں میں صرف کرے۔‘‘ ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، آپ نے فرمایا: ’’یہاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ آپ نے مجھے ایک صاف میدان میں بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور آپ نے مجھے تاکید کی، یہاں بیٹھے رہو حتیٰ کہ میں تمہارے پاس واپس آؤں۔‘‘ پھر آپ پتھریلے میدان میں چلے گئے حتیٰ کہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور مجھ سے بہت دیر تک غائب رہے، پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے ہیں: ’’اگرچہ چوری کرے یا بدکاری کرے؟‘‘ جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہ ہوسکا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے! اس پتھریلے میدان کی طرف آپ کس سے باتیں کر رہے تھے؟ میں نے کسی کو آپ سے گفتگو کرتے نہیں سنا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ حضرت جبریل ؑ تھے جو پتھریلے میدان کی ایک طرف مجھے ملے اور کہا: اپنی اُمت کو خوشخبری سنائیں کہ جو کوئی اس حال میں فوت ہو جائے کہ اس نے کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ بنایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا: اے جبریل ؑ ! اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پھر کہا: اگرچہ اس نے چوری کی ہو اور بدکاری کی ہو؟ انھوں نے (جبریل نے) کہا: ہاں، اگرچہ اس نے شراب نوشی کی ہو۔‘‘ نضر نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبر دی، انھیں حبیب بن ابی ثابت، اعمش اور عبدالعزیز بن رفیع نے بتایا، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ ) نے کہا کہ ابوصالح نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایت بیان کی ہے وہ منقطع ہونے کی بناپر صحیح نہیں۔ ہم نے یہ بیان کر دیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہو جائے۔ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث ہی صحیح ہے۔ کسی نے امام بخاری ؓ سے پوچھا: عطا بن یسار نے بھی یہ حدیث ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے؟ انھوں نے کہا: وہ بھی منقطع ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں۔ صحیح حدیث حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے، اس لیے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کو نظر انداز کر دو۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؓ کہتے ہیں، ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کا مطلب ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث والا ہے: جب وہ مرتے وقت لا إلٰه إلا اللہ کہہ دے، یعنی توحید پر خاتمہ ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو آگاہ کیا تھا کہ آخرت کی دشوار گزار گھاٹیوں کو وہی لوگ عبور کر سکیں گے جو دنیا میں ہلکے پھلکے رہیں گے اور جو لوگ دنیا میں اپنے اوپر زیادہ بوجھ لاد لیں گے وہ آسانی سے ان گھاٹیوں کو پار نہ کر سکیں گے، اس لیے اکثر صحابہ فقر و فاقے کی زندگی ہی کو اپنے لیے پسند کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)) حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں آدم کا بیٹا ناپسند کرتا ہے: انسان موت کو ناپسند کرتا ہے، حالانکہ موت اہل ایمان کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور وہ قلت مال کو ناپسند کرتا ہے جبکہ قلت مال کا حساب کم ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 427/5) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں زیادہ مال دار لوگ قیامت کے دن اسی قدر زیادہ نادار ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنے مال آخرت بنانے کے بجائے اسے اپنی سج دھج اور ٹھاٹھ باٹھ میں خرچ کر دیا، اس لیے قیامت کے دن وہ درج ذیل آیت کا مصداق ہوں گے: ’’تم نے اپنی چیزیں دنیا کی زندگانی میں حاصل کر لیں اور تم نے ان سے فائدہ اٹھا لیا، اس لیے آج تمہیں ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘(الأحقاف: 20) یہی وجہ ہے کہ عموماً اللہ تعالیٰ کے نافرمان دنیاوی اعتبار سے زیادہ خوشحال نظر آتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا طالب ہے۔۔۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبد الحمید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن رفیع نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذرغفاری ؓ نے بیان کیا کہ ایک روز میں باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ ابوذرؓ کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ آنحضرت ﷺ اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے۔ اس لئے میں چاند کے سائے میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا ابوذر! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، ابو ذر! یہاں آؤ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جو لوگ (دنیا میں) زیادہ مال ودولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں، آگے پیچھے خرچ کیا ہوا ور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو۔ (ابوذر ؓ نے) بیان کیا کہ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ آپﷺ نے فرمایاکہ یہاں بیٹھ جاؤ۔ آنحضرتﷺنے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے۔ پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لا رہے تھے ”چاہے چوری کی ہو، چاہے زنا ہو کیا۔“ ابوذر کہتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہوسکا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ”یہ جبریل ؑ تھے۔ پتھریلی زمین (حرہ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوش خبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہوتو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا اے جبریل! خواہ اس نے چوری کی ہو، زنا کیا ہو؟ جبریل ؑ نے کہا ہاں، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔“ نضرنے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی (کہا) ہم سے حبیب بن ابی ثابت، اعمش اور عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا۔ امام بخاری ؓ نے کہا ابو صالح نے جو اسی باب میں ابو درداء سے روایت کی ہے وہ منقطع ہے (ابو صالح نے ابودرداء سے نہیں سنا) اور صحیح نہیں ہے ہم نے یہ بیان کر دیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہو جائے اور صحیح ابوذر کی حدیث ہے (جو اوپر مذکورہوئی) کسی نے امام بخاری سے پوچھا عطاء بن یسار نے بھی تو یہ حدیث ابودرداء سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی منقطع ہے اور صحیح نہیں ہے۔ آخر صحیح وہی ابوذر کی حدیث نکلی۔ امام بخاری نے کہا ابودرداء کی حدیث کو چھوڑو (وہ سند لینے کے لائق نہیں ہے کیونکہ مرتے وقت آدمی لا إلٰه إلا اللہ کہے اور توحید پر خاتمہ ہو (تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا گو کتنا ہی گنہگار ہو۔ بعض نسخوں میں یہ ہے: ھذا اإذا تاب و قاللا إلٰه إلا اللہ عند الموت یعنی ابوذرکی حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ سے توبہ کرے اور مرتے وقت لا إلٰه إلا اللہ کہے ۔
حدیث حاشیہ:
زید بن وہب کی سند کے بیان کرنے سے امام بخاری نے عبد العزیز کا سماع زید بن وہب سے ثابت کر دیا اور تدلیس کے شبہ کو رفع کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA) : Once I went out at night and found Allah's Apostle (ﷺ) walking all alone accompanied by nobody, and I thought that perhaps he disliked that someone should accompany him. So I walked in the shade, away from the moonlight, but the Prophet (ﷺ) looked behind and saw me and said, "Who is that?" I replied, "Abu Dhar, let Allah get me sacrificed for you!" He said, "O Abu Dhar, come here!" So I accompanied him for a while and then he said, "The rich are in fact the poor (little rewarded) on the Day of Resurrection except him whom Allah gives wealth which he gives (in charity) to his right, left, front and back, and does good deeds with it. I walked with him a little longer. Then he said to me, "Sit down here." So he made me sit in an open space surrounded by rocks, and said to me, "Sit here till I come back to you." He went towards Al-Harra till I could not see him, and he stayed away for a long period, and then I heard him saying, while he was coming, "Even if he had committed theft, and even if he had committed illegal sexual intercourse?" When he came, I could not remain patient and asked him, "O Allah's Prophet! Let Allah get me sacrificed for you! Whom were you speaking to by the side of Al-Harra? I did not hear anybody responding to your talk." He said, "It was Gabriel (ؑ) who appeared to me beside Al-Harra and said, 'Give the good news to your followers that whoever dies without having worshipped anything besides Allah, will enter Paradise.' I said, 'O Gabriel (ؑ)! Even if he had committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' I said, 'Even if he has committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' I said, 'Even if he has committed theft or committed illegal sexual intercourse?' He said, 'Yes.' "