باب: نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا میرے پاس ہوتو بھی مجھ کو یہ پسند نہیں آخرحدیث تک
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: "It would not please me to have gold equal to this mountain of Uhud")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6444.
حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے علاقے میں چل رہا تھا کہ ہمارے سامنے اُحد پہاڑ نمودار ہوا۔ آپ نے فرمایا:’’اے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ’’میں نے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑوں، مگر میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کردوں۔‘‘ آپ نے دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: ’’بے شک زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوائے اس شخص کے جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا۔۔۔ آپ نے دائیں، بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔ اور ایسے بہت کم لوگ ہیں۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنی جگہ ٹھہرو اور میرے آنے تک یہاں ہی رہو۔‘‘ پھر آپ رات کی تاریکی میں چلے گئے یہاں تک کہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد میں نے ایک بلند آواز سنی تو مجھے خطرہ لاحق ہوا مبادا نبی کریم ﷺ کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ میں نے آپ کے پاس جانے کا ارادہ کیا تو مجھے آپ کا ارشاد یاد آگیا: ’’تم اپنی جگہ ٹھہرو جب تک میں تمہارے پاس نہ آجاؤں۔‘‘ چنانچہ جب تک آپ ﷺ تشریف نہیں لائے میں وہاں سے نہیں ہٹا۔ (جب آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو) میں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے ایک آواز سنی تھی جس سے مجھے خطرہ لاحق ہو گیا تھا لیکن آپ کی بات یاد آ گئی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے کوئی آواز سنی تھی؟‘‘ میں نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل ؑ تھے جو میرے پاس آئے تھے اور انھوں نے کہا: آپ کی اُمت میں سے جو شخص اس حالت میں فوت ہو جائے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا: اگرچہ اس نے چوری اور بدکاری بھی کی ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں، اگرچہ وہ چوری اور بدکاری کا مرتکب ہوا ہو۔‘‘
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے دنیا میں فقر و تنگدستی کا انتخاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قناعت، صبر اور توکل کا وافر سرمایہ دے کر ہوس زر سے فارغ کر دیا، اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر و فاقے کی جس حالت میں زندگی گزاری وہ اپنے لیے آپ نے خود ہی پسند کی تھی اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے اسے خود مانگا تھا۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6215
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6444
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6444
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6444
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے علاقے میں چل رہا تھا کہ ہمارے سامنے اُحد پہاڑ نمودار ہوا۔ آپ نے فرمایا:’’اے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! ’’میں نے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑوں، مگر میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کردوں۔‘‘ آپ نے دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: ’’بے شک زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوائے اس شخص کے جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا۔۔۔ آپ نے دائیں، بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔ اور ایسے بہت کم لوگ ہیں۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنی جگہ ٹھہرو اور میرے آنے تک یہاں ہی رہو۔‘‘ پھر آپ رات کی تاریکی میں چلے گئے یہاں تک کہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد میں نے ایک بلند آواز سنی تو مجھے خطرہ لاحق ہوا مبادا نبی کریم ﷺ کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ میں نے آپ کے پاس جانے کا ارادہ کیا تو مجھے آپ کا ارشاد یاد آگیا: ’’تم اپنی جگہ ٹھہرو جب تک میں تمہارے پاس نہ آجاؤں۔‘‘ چنانچہ جب تک آپ ﷺ تشریف نہیں لائے میں وہاں سے نہیں ہٹا۔ (جب آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو) میں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میں نے ایک آواز سنی تھی جس سے مجھے خطرہ لاحق ہو گیا تھا لیکن آپ کی بات یاد آ گئی۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے کوئی آواز سنی تھی؟‘‘ میں نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ جبرئیل ؑ تھے جو میرے پاس آئے تھے اور انھوں نے کہا: آپ کی اُمت میں سے جو شخص اس حالت میں فوت ہو جائے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا: اگرچہ اس نے چوری اور بدکاری بھی کی ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں، اگرچہ وہ چوری اور بدکاری کا مرتکب ہوا ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے دنیا میں فقر و تنگدستی کا انتخاب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قناعت، صبر اور توکل کا وافر سرمایہ دے کر ہوس زر سے فارغ کر دیا، اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر و فاقے کی جس حالت میں زندگی گزاری وہ اپنے لیے آپ نے خود ہی پسند کی تھی اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے اسے خود مانگا تھا۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو الاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے کہ حضرت ابوذرغفار ی ؓ نے کہا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ کے ساتھ مدینہ کے پتھر یلے علاقہ میں چل رہا تھا کہ احد پہاڑہمارے سامنے آگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے دریافت فرمایا ابوذر! میں نے عرض کیا حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گذر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوا اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائگی کے لئے چھوڑ دوں بلکہ میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح خرچ کروں اپنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے۔ پھر آنحضرت ﷺ چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا زیادہ مال جمع رکھنے والے ہی قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوا اس شخص کے جو اس مال کو اس اس طرح دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے خرچ کرے اور ایسے لوگ کم ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایا، یہیں ٹھہرے رہو، یہا ں سے اس وقت تک نہ جانا جب تک میں آنہ جاؤں۔ پھر آنحضرت ﷺ رات کی تاریکی میں چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی جو بلند تھی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں آنحضرت ﷺ کو کوئی دشواری نہ پیش آگئی ہو۔ میں نے آپ کی خدمت میں پہنچنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کا ارشاد یاد آیا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ چنانچہ جب تک آنحضرت ﷺ تشریف نہیں لائے میں وہاں سے نہیں ہٹا۔ پھر آپ آئے میں نے عرض کے اے رسول اللہ! میں نے ایک آواز سنی تھی، مجھے ڈرلگا لیکن پھر آپ کا ارشاد یاد آیا۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تم نے سنا تھا؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ فرمایا کہ وہ جبریل ؑ تھے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی امت کا جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا خواہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو؟ انہوں نے کہا ہاں زنا اور چوری ہی کیوں نہ کی ہو۔
حدیث حاشیہ:
اہل سنت کا مذہب گنہگار مومن کے بارے میں جو بغیر توبہ کئے مر جائے یہی ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر ہے خواہ گناہ معاف کر کے اس کو بلا عذاب جنت میں داخل کرے یا چند روز عذاب کر کے اسے بخش دے لیکن مرجیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مومن ہو تو کوئی گناہ اس کو ضررنہ کرے گا اور معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ بلا توبہ مر جائے تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ یہ ہر دو قول غلط ہیں اور اہل سنت ہی کا مذہب صحیح ہے۔ مومن مسلمان کے لئے بہر حال بخشش مقدرہے۔ یا اللہ! اپنی بخشش سے ہم کو بھی سرفراز فرمائیو۔ (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dhar (RA) : While I was walking with the Prophet (ﷺ) in the Harra of Medina, Uhud came in sight. The Prophet (ﷺ) said, "O Abu Dhar!" I said, "Labbaik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "I would not like to have gold equal to this mountain of Uhud, unless nothing of it, not even a single Dinar of it remains with me for more than three days, except something which I will keep for repaying debts. I would have spent all of it (distributed it) amongst Allah's Slaves like this, and like this, and like this." The Prophet (ﷺ) pointed out with his hand towards his right, his left and his back (while illustrating it). He proceeded with his walk and said, "The rich are in fact the poor (little rewarded) on the Day of Resurrection except those who spend their wealth like this, and like this, and like this, to their right, left and back, but such people are few in number." Then he said to me, "Stay at your place and do not leave it till I come back." Then he proceeded in the darkness of the night till he went out of sight, and then I heard a loud voice, and was afraid that something might have happened to the Prophet (ﷺ) .1 intended to go to him, but I remembered what he had said to me, i.e. 'Don't leave your place till I come back to you,' so I remained at my place till he came back to me. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I heard a voice and I was afraid." So I mentioned the whole story to him. He said, "Did you hear it?" I replied, "Yes." He said, "It was Gabriel (ؑ) who came to me and said, 'Whoever died without joining others in worship with Allah, will enter Paradise.' I asked ( Gabriel (ؑ)), 'Even if he had committed theft or committed illegal sexual intercourse? Gabriel (ؑ) said, 'Yes, even if he had committed theft or committed illegal sexual intercourse."