باب: نبی کریم ﷺاور آپ ﷺ کے صحابہ کے گزران کا بیان اور دنیا کے مزوں سے ان کا علیحدہ رہنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: How the Prophet (saws) and his Companions used to live)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6452.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں میں بعض اوقات بھوک كے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا اور بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں اس راستے پر بیٹھ گیا جہاں صحابہ کرام کی آمد ورفت تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے متعلق پوچھا۔ میرے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بغیر کچھ کیے وہاں سے چل دیے۔ پھرحضرت عمر بن خطاب ؓ میرے پاس سے گزرے تو میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت کے متعلق دریافت کیا اور دریافت کرنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بھی کچھ کیے بغیر چپکے سے گزر گئےان کے بعد ابو القاسم ﷺ میرے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے جب مجھے دیکھا تو مسکرا دیے۔ میرے چہرے کو آپ نے تاڑ لیا اور میرے دل کی بات سمجھ گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے ساتھ آ جاؤ۔“ چنانچہ جب آپ چلنے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ جب آپ اندر گئے تو آپ کو ایک پیالے میں دودھ ملا۔ آپ نے پوچھا: ”یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟“ اہل خانہ نے کہا: یہ فلاں مرد یا عورت نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اےابو ہریرہ!“ میں نے عرض کی:لبیک اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔“ اہل صفہ اہل اسلام کے مہمان تھے وہ گھر بار اہل وعیال اور مال وغیرہ نہ رکھتے تھے اور نہ کسی کے پاس جاتے ہی تھے جب آپ ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو وہ ان کے پاس بھیج دیتے اور خود اس سے کچھ نہ کھاتے تھے اور جب آپ کے پاس ہدیہ آتا تو اس سے کچھ خود بھی کھا لیتے اور ان کےپاس بھی بھیج دیتے تھے اور انہیں اس میں شریک کرلیتے تھے۔ مجھے یہ بات ناگوار گزری۔ میں نے سوچا کہ اس دودھ کی مقدار کیا ہے جو وہ اہل صفہ میں تقسیم ہو؟ اس کا حق دار تو میں تھا اسے نوش کر کے کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب (اہل صفہ) آئیں گے تو (رسول اللہ ﷺ مجھے ہی فرمائیں گے تو) میں ان میں تقسیم کروں گا۔ مجھے تو شاید اس دودھ سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے حکم کی بجا آوری کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور انہیں (آپ کی) دعوت پہنچائی۔ وہ آئے اور انہوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہیں اجازت مل گئی۔ پھر وہ آپ کے گھر میں اپنی اپنی جگہ پر فروکش ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!“ میں نے عرض کی: لبیک اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”پیالہ لو اور سب حاضرین کو دودھ پلاؤ“ میں نے وہ پیالہ پکڑا اور ایک ایک کو پلانے لگا۔ ایک شخص جب پی کر سیراب ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا۔ پھر میں دوسرے شخص کو دیتا۔ وہ بھی سیر ہو کر پیتا پھر پیالہ مجھے واپس کر دیتا اسی طرح تیسرا پی کر پھر پیالہ مجھے واپس کر دیتا، یہاں تک کہ میں نبی ﷺ تک پہنچا جبکہ تمام اہل صفہ دودھ پی کر سیراب ہو چکے تھے آخر میں آپ ﷺ نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!“ میں نے عرض کی: لبیک: اللہ کے رسول! فرمایا: ”میں اور آپ باقی رہ گئے ہیں“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے سچ فرمایا ہے آپ نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ اور اسے نوش کرو۔“ چنانچہ میں بیٹھ گیا اور دودھ پینا شروع کر دیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: ”اور پیو۔“ آپ مجھے اور پینے کا مسلسل کہتے رہے حتیٰ کہ مجھے کہنا پڑا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اپ پینے کی بالکل گنجائش نہیں۔ اس کے لیے کوئی راہ نہیں پاتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر مجھے دے دو۔“ میں نے وہ پیالہ آپ کو دے دیا۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کی اور بسم اللہ پڑھ کر (ہم سب کا) بچا ہوا دودھ نوش فرمایا۔
تشریح:
(1) مسجد نبوی میں ایک چبوترہ تھا جس میں بے گھر، بے در اور اہل و عیال کے بغیر کچھ غریب لوگ رہا کرتے تھے جنہیں اصحاب صفہ کہا جاتا ہے۔ ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے صرف حصول علم حدیث کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلا معجزہ ہے کہ ستر سے زیادہ اصحاب صفہ صرف ایک پیالے دودھ سے سیر ہو گئے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کچھ بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا کہ شاید ان کے لیے دودھ نہ بچے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے دور نبوی کی ایک ادنیٰ سی جھلک پیش کی ہے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا گزر اوقات کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیش و عشرت کے بجائے فقر و قافے کو ترجیح دیتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو فقر و فاقے کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈھال تیار رکھو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف فقر سیلاب کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2350)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6223
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6452
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6452
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6452
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اس قدر سادہ اور درویشانہ تھی کہ موجودہ رہن سہن کو دیکھ کر اس سادہ زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو ہر شخص دنیاوی عیش و آرام میں غرق نظر آتا ہے۔ درج ذیل احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی گزر اوقات اور اندازِ زندگی کی معمولی سی جھلک پیش کی گئی ہے۔ چونکہ ان کے سامنے ''لا عيش إلا عيش الآخرة'' (صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث: 442) کا تصور تھا، اس لیے دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ سے وہ کوسوں دور تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ کے متعلق ان الفاظ میں اظہار خیال کرتے تھے: میں نے ستر کے قریب اصحاب صفہ کو دیکھا، ان میں سے کسی ایک پر بھی بڑی چادر نہ تھی۔ ان پر تہ بند ہوتا یا ایک چادر ہوتی۔ انہوں نے اس کے کنارے گردنوں سے باندھ رکھے ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ کی چادریں نصف پنڈلی تک اور کچھ کی ٹخنوں تک پہنچی تھیں اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتا تاکہ اس کا ستر نہ کھل جائے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4243) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے فتح خیبر سے پہلے کبھی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں میں بعض اوقات بھوک كے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا اور بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں اس راستے پر بیٹھ گیا جہاں صحابہ کرام کی آمد ورفت تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے متعلق پوچھا۔ میرے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بغیر کچھ کیے وہاں سے چل دیے۔ پھرحضرت عمر بن خطاب ؓ میرے پاس سے گزرے تو میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت کے متعلق دریافت کیا اور دریافت کرنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بھی کچھ کیے بغیر چپکے سے گزر گئےان کے بعد ابو القاسم ﷺ میرے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے جب مجھے دیکھا تو مسکرا دیے۔ میرے چہرے کو آپ نے تاڑ لیا اور میرے دل کی بات سمجھ گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے ساتھ آ جاؤ۔“ چنانچہ جب آپ چلنے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ جب آپ اندر گئے تو آپ کو ایک پیالے میں دودھ ملا۔ آپ نے پوچھا: ”یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟“ اہل خانہ نے کہا: یہ فلاں مرد یا عورت نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اےابو ہریرہ!“ میں نے عرض کی:لبیک اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔“ اہل صفہ اہل اسلام کے مہمان تھے وہ گھر بار اہل وعیال اور مال وغیرہ نہ رکھتے تھے اور نہ کسی کے پاس جاتے ہی تھے جب آپ ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو وہ ان کے پاس بھیج دیتے اور خود اس سے کچھ نہ کھاتے تھے اور جب آپ کے پاس ہدیہ آتا تو اس سے کچھ خود بھی کھا لیتے اور ان کےپاس بھی بھیج دیتے تھے اور انہیں اس میں شریک کرلیتے تھے۔ مجھے یہ بات ناگوار گزری۔ میں نے سوچا کہ اس دودھ کی مقدار کیا ہے جو وہ اہل صفہ میں تقسیم ہو؟ اس کا حق دار تو میں تھا اسے نوش کر کے کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب (اہل صفہ) آئیں گے تو (رسول اللہ ﷺ مجھے ہی فرمائیں گے تو) میں ان میں تقسیم کروں گا۔ مجھے تو شاید اس دودھ سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے حکم کی بجا آوری کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور انہیں (آپ کی) دعوت پہنچائی۔ وہ آئے اور انہوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہیں اجازت مل گئی۔ پھر وہ آپ کے گھر میں اپنی اپنی جگہ پر فروکش ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!“ میں نے عرض کی: لبیک اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”پیالہ لو اور سب حاضرین کو دودھ پلاؤ“ میں نے وہ پیالہ پکڑا اور ایک ایک کو پلانے لگا۔ ایک شخص جب پی کر سیراب ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا۔ پھر میں دوسرے شخص کو دیتا۔ وہ بھی سیر ہو کر پیتا پھر پیالہ مجھے واپس کر دیتا اسی طرح تیسرا پی کر پھر پیالہ مجھے واپس کر دیتا، یہاں تک کہ میں نبی ﷺ تک پہنچا جبکہ تمام اہل صفہ دودھ پی کر سیراب ہو چکے تھے آخر میں آپ ﷺ نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا: ”اے ابو ہریرہ!“ میں نے عرض کی: لبیک: اللہ کے رسول! فرمایا: ”میں اور آپ باقی رہ گئے ہیں“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے سچ فرمایا ہے آپ نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ اور اسے نوش کرو۔“ چنانچہ میں بیٹھ گیا اور دودھ پینا شروع کر دیا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا: ”اور پیو۔“ آپ مجھے اور پینے کا مسلسل کہتے رہے حتیٰ کہ مجھے کہنا پڑا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اپ پینے کی بالکل گنجائش نہیں۔ اس کے لیے کوئی راہ نہیں پاتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر مجھے دے دو۔“ میں نے وہ پیالہ آپ کو دے دیا۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالٰی کی حمد وثنا کی اور بسم اللہ پڑھ کر (ہم سب کا) بچا ہوا دودھ نوش فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسجد نبوی میں ایک چبوترہ تھا جس میں بے گھر، بے در اور اہل و عیال کے بغیر کچھ غریب لوگ رہا کرتے تھے جنہیں اصحاب صفہ کہا جاتا ہے۔ ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے صرف حصول علم حدیث کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلا معجزہ ہے کہ ستر سے زیادہ اصحاب صفہ صرف ایک پیالے دودھ سے سیر ہو گئے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کچھ بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا کہ شاید ان کے لیے دودھ نہ بچے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے دور نبوی کی ایک ادنیٰ سی جھلک پیش کی ہے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا گزر اوقات کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیش و عشرت کے بجائے فقر و قافے کو ترجیح دیتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو فقر و فاقے کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈھال تیار رکھو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف فقر سیلاب کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2350)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ابو نعیم نے یہ حدیث آدھی کے قریب بیان کی اور آدھی دوسرے شخص نے، کہا ہم سے عمر بن ذرنے بیان کیا، کہا ہم سے مجاہد نے بیان کیا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کہا کرتے تھے کہ ”اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں (زمانہ نبوی میں) بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ گزر ے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ پھر حضرت عمر ؓ میرے پاس سے گزرے، میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد حضور اکرم ﷺ گزرے اور آپ نے جب مجھے دیکھا تو آپ مسکرا دیے اور آپ میرے دل کی بات سمجھ گئے اور میرے چہرے کو آپ نے تاڑ لیا۔ پھر آپ نے فرمایا ابا ہریرہ! میں نے عرض کیا لبیک، یا رسول اللہ! فرمایا میرے ساتھ آ جاؤ اور آپ چلنے لگے۔ میں آنحضرت ﷺ کے پیچھے چل دیا۔ پھر آنحضرت ﷺ اندر گھر میں تشریف لے گئے۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور مجھے اجازت ملی۔ جب آپ داخل ہوئے تو ایک پیالے دودھ ملا۔ دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ کہا فلاں یا فلانی نے آنحضرت ﷺ کے لئے تحفہ میں بھیجا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابا ہریریرہ! میں نے عرض کیا لبیک، یارسول اللہ! فرمایا، اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ۔ کہا کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں، وہ نہ کسی کے گھر پناہ ڈھونڈھتے، نہ کسی کے مال میں اور نہ کسی کے پاس! جب آنحضرت ﷺ کے پاس صدقہ آتا تو اسے آنحضرت ﷺ انہیں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہیں رکھتے۔ البتہ جب آپ کے پاس تحفہ آتا تو انہیں بلا بھیجتے اور خود بھی اس میں سے کچھ کھاتے اور انہیں بھی شریک کرتے۔ چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حق دار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب صفہ والے آئیں گے تو آنحضرت ﷺ مجھ سے فرمائیں گے اور میں انہیں اسے دے دوں گا۔ مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی حکم برداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور آنحضرت ﷺ کی دعوت پہنچائی، وہ آگئے اور اجازت چاہی۔ انہیں اجازت مل گئی پھر وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ابا ہریرہ! میں نے عرض کیا لبیک، یارسول اللہ! فرمایا لو اور اسے ان سب حاضرین کو دے دو۔ بیان کیا کہ پھر میں نے پیالہ پکڑ لیا اور ایک ایک کو دینے لگا۔ ایک شخص دودھ پی کر جب سیراب ہو جاتا تو مجھے پیالہ واپس کر دیتا پھر دوسرے شخص کو دیتا وہ بھی سیراب ہوکر پیتا پھر پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا اور اسی طرح تیسرا پی کر پھر مجھے پیالہ واپس کر دیتا۔ اس طرح میں نبی کریم ﷺ تک پہنچا لوگ پی کر سیراب ہوچکے تھے۔ آخر میں آنحضرت ﷺ نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اورمسکرا کر فرمایا، اباہریرہ! میں نے عرض کیا، لبیک، یارسول اللہ! فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ نے سچ فرمایا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیو۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا اور آنحضرت ﷺ برابر فرماتے رہے کہ اور پیو آخر مجھے کہنا پڑا، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب بالکل گنجائش نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا خود پی گئے۔
حدیث حاشیہ:
مسجد نبوی کے سائبان کے نیچے ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا جس پر بے گھر بے درمشتاقان علم قرآن وحدیث سکونت رکھتے تھے، یہی اصحاب صفہ تھے۔ ان ہی میں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حدیث میں آپ کے کھلے ہوئے ایک بابرکت معجزہ کا ذکر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو بے صبری کا خیا ل کیا تھا کہ دیکھئے دودھ میرے لئے بچتا ہے یا نہیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے۔ سچ ہے ﴿خُلِقَ الانسانُ ھَلُوعاً﴾
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : By Allah except Whom none has the right to- be worshipped, (sometimes) I used to lay (sleep) on the ground on my liver (abdomen) because of hunger, and (sometimes) I used to bind a stone over my belly because of hunger. One day I sat by the way from where they (the Prophet (ﷺ) and h is companions) used to come out. When Abu Bakr (RA) passed by, I asked him about a Verse from Allah's Book and I asked him only that he might satisfy my hunger, but he passed by and did not do so. Then Umar passed by me and I asked him about a Verse from Allah's Book, and I asked him only that he might satisfy my hunger, but he passed by without doing so. Finally Abu-l-Qasim (the Prophet) passed by me and he smiled when he saw me, for he knew what was in my heart and on my face. He said, "O Aba Hirr ( Abu Hurairah (RA) )!" I replied, "Labbaik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said to me, "Follow me." He left and I followed him. Then he entered the house and I asked permission to enter and was admitted. He found milk in a bowl and said, "From where is this milk?" They said, "It has been presented to you by such-and-such man (or by such and such woman)." He said, "O Aba Hirr!" I said, "Labbaik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Go and call the people of Suffa to me." These people of Suffa were the guests of Islam who had no families, nor money, nor anybody to depend upon, and whenever an object of charity was brought to the Prophet (ﷺ) , he would send it to them and would not take anything from it, and whenever any present was given to him, he used to send some for them and take some of it for himself. The order off the Prophet (ﷺ) upset me, and I said to myself, "How will this little milk be enough for the people of As-Suffa?" thought I was more entitled to drink from that milk in order to strengthen myself, but behold! The Prophet (ﷺ) came to order me to give that milk to them. I wondered what will remain of that milk for me, but anyway, I could not but obey Allah and His Apostle (ﷺ) so I went to the people of As-Suffa and called them, and they came and asked the Prophet's permission to enter. They were admitted and took their seats in the house. The Prophet (ﷺ) said, "O Aba-Hirr!" I said, "Labbaik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Take it and give it to them." So I took the bowl (of Milk) and started giving it to one man who would drink his fill and return it to me, whereupon I would give it to another man who, in his turn, would drink his fill and return it to me, and I would then offer it to another man who would drink his fill and return it to me. Finally, after the whole group had drunk their fill, I reached the Prophet (ﷺ) who took the bowl and put it on his hand, looked at me and smiled and said. "O Aba Hirr!" I replied, "Labbaik, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "There remain you and I." I said, "You have said the truth, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Sit down and drink." I sat down and drank. He said, "Drink," and I drank. He kept on telling me repeatedly to drink, till I said, "No. by Allah Who sent you with the Truth, I have no space for it (in my stomach)." He said, "Hand it over to me." When I gave him the bowl, he praised Allah and pronounced Allah's Name on it and drank the remaining milk.