باب: نبی کریم ﷺاور آپ ﷺ کے صحابہ کے گزران کا بیان اور دنیا کے مزوں سے ان کا علیحدہ رہنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: How the Prophet (saws) and his Companions used to live)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6455.
سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضرت محمد ﷺ کے گھرانے نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں۔
تشریح:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ جب خیبر اور فدک فتح ہوئے تو وہاں سے مال فَے کی صورت میں جو کچھ حاصل ہوا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خمس ہوتا تھا۔ ان کے باغات سے جو کھجوریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آتیں، ان میں سے آپ اہل خانہ کا سال بھر کا خرچ نکال کر باقی پیدوار اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کر دیتے تھے۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3094) جب یہ حالت تھی تو یہ فقر اور فاقہ کشی چہ معنی دارد؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل خانہ کے لیے سال بھر کا خرچ رکھنے کے باوجود سائلین اور محتاجوں پر اسے خرچ کر دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک یہ نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے۔ (2) بعض اوقات نوبت یہاں تک پہنچ جاتی کہ عمر شریف کے آخری حصے میں ایک یہودی سے تیس وسق کھجوریں ادھار لیں اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی، لیکن اسے چھڑانے سے پہلے آپ کی وفات ہوگئی۔ (صحیح البخاري، الرھن، حدیث: 2509) (3)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ فاقہ کشی مالی کمزوری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ایثار اور ہمدردی کی بنا پر تھی، ویسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹ بھر کر کھانے کو پسند نہیں کرتے تھے۔(فتح الباري: 352/11) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6226
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6455
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6455
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6455
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اس قدر سادہ اور درویشانہ تھی کہ موجودہ رہن سہن کو دیکھ کر اس سادہ زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو ہر شخص دنیاوی عیش و آرام میں غرق نظر آتا ہے۔ درج ذیل احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی گزر اوقات اور اندازِ زندگی کی معمولی سی جھلک پیش کی گئی ہے۔ چونکہ ان کے سامنے ''لا عيش إلا عيش الآخرة'' (صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث: 442) کا تصور تھا، اس لیے دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ سے وہ کوسوں دور تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ کے متعلق ان الفاظ میں اظہار خیال کرتے تھے: میں نے ستر کے قریب اصحاب صفہ کو دیکھا، ان میں سے کسی ایک پر بھی بڑی چادر نہ تھی۔ ان پر تہ بند ہوتا یا ایک چادر ہوتی۔ انہوں نے اس کے کنارے گردنوں سے باندھ رکھے ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ کی چادریں نصف پنڈلی تک اور کچھ کی ٹخنوں تک پہنچی تھیں اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتا تاکہ اس کا ستر نہ کھل جائے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4243) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے فتح خیبر سے پہلے کبھی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا تھا۔
سیدہ عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضرت محمد ﷺ کے گھرانے نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ جب خیبر اور فدک فتح ہوئے تو وہاں سے مال فَے کی صورت میں جو کچھ حاصل ہوا اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خمس ہوتا تھا۔ ان کے باغات سے جو کھجوریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آتیں، ان میں سے آپ اہل خانہ کا سال بھر کا خرچ نکال کر باقی پیدوار اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کر دیتے تھے۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3094) جب یہ حالت تھی تو یہ فقر اور فاقہ کشی چہ معنی دارد؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل خانہ کے لیے سال بھر کا خرچ رکھنے کے باوجود سائلین اور محتاجوں پر اسے خرچ کر دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک یہ نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے۔ (2) بعض اوقات نوبت یہاں تک پہنچ جاتی کہ عمر شریف کے آخری حصے میں ایک یہودی سے تیس وسق کھجوریں ادھار لیں اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی، لیکن اسے چھڑانے سے پہلے آپ کی وفات ہوگئی۔ (صحیح البخاري، الرھن، حدیث: 2509) (3)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ فاقہ کشی مالی کمزوری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ایثار اور ہمدردی کی بنا پر تھی، ویسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹ بھر کر کھانے کو پسند نہیں کرتے تھے۔(فتح الباري: 352/11) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم بن عبد الرحمن بغوی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہلال نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے گھرانہ نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The family of Muhammad (ﷺ) did not eat two meals on one day, but one of the two was of dates.