باب: نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا ( نہ کمی ہو نہ زیادتی)
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The adoption of a middle course, and the regularity of deeds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6467.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”نیک عمل کرتے وقت حد سے نہ بڑھو بلکہ قریب قریب رہو، یعنی میانہ روی اختیار کرو۔ تمہیں خوشی ہونی چاہیئے کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے بھی نہیں؟ فرمایا: ”میں بھی مگر اس وقت جب اللہ تعالٰی مجھےاپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں ڈھانپ لے۔“ ایک دوسری روایت ہے سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میانہ روی اختیار کرو اور خوش رہو۔“ امام مجاہد نے (قولاً سدیدًا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سدید اور سداد کے معنیٰ ہیں: سچائی۔
تشریح:
(1) ان احادیث میں کسی کام کو میانہ روی کے ساتھ ہمیشہ کرنے کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی ہے۔ اس عنوان کے دو اجزاء نہیں بلکہ ایک ہی جز کے دو رخ ہیں کیونکہ اسی کام کو ہمیشہ کیا جا سکتا ہے جو میانہ روی اور اعتدال کے ساتھ کیا جائے اور اس میں افراط یا تفریط سے اس کی افادیت اور اہمیت مجروح ہو جاتی ہے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر اعتدال قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ہم صرف تین آیات پیش کرتے ہیں: ٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ اپنی نماز کو نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اعتدال کا لہجہ اختیار کریں۔‘‘(بني إسرائیل: 110) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن اتنی بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کریں۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نہ تم اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے پوری طرح کھلا ہی چھوڑ دو ورنہ تم خود ملامت زدہ اور درماندہ بن کر رہ جاؤ گے۔‘‘(بنی اسرائیل: 17/29) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لیا جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی خرچ کیا جائے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے بلکہ میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے۔ خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے: ’’اور جو لوگ خرچ کرتے ہیں وہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔‘‘(الفرقان: 67) مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے کاموں میں حد سے زیادہ خرچ کرنا معیوب ہے، اسی طرح ضرورت کے وقت پیسہ خرچ نہ کرنا بلکہ اسے جوڑ کر رکھنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ اعتدال کی پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے۔ (2) اسراف اور بخل کے درمیان صفت کو اقتصاد یا قصد کہتے ہیں۔ اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت پر اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضروری ہو، نہ کم ہو نہ زیادہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان اور پیش کردہ احادیث کا یہی مقصد ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6238
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6467
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6467
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6467
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”نیک عمل کرتے وقت حد سے نہ بڑھو بلکہ قریب قریب رہو، یعنی میانہ روی اختیار کرو۔ تمہیں خوشی ہونی چاہیئے کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔“ صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے بھی نہیں؟ فرمایا: ”میں بھی مگر اس وقت جب اللہ تعالٰی مجھےاپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں ڈھانپ لے۔“ ایک دوسری روایت ہے سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میانہ روی اختیار کرو اور خوش رہو۔“ امام مجاہد نے (قولاً سدیدًا) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ سدید اور سداد کے معنیٰ ہیں: سچائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث میں کسی کام کو میانہ روی کے ساتھ ہمیشہ کرنے کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی ہے۔ اس عنوان کے دو اجزاء نہیں بلکہ ایک ہی جز کے دو رخ ہیں کیونکہ اسی کام کو ہمیشہ کیا جا سکتا ہے جو میانہ روی اور اعتدال کے ساتھ کیا جائے اور اس میں افراط یا تفریط سے اس کی افادیت اور اہمیت مجروح ہو جاتی ہے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر اعتدال قائم رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ہم صرف تین آیات پیش کرتے ہیں: ٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ اپنی نماز کو نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان اعتدال کا لہجہ اختیار کریں۔‘‘(بني إسرائیل: 110) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن اتنی بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کریں۔ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نہ تم اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے پوری طرح کھلا ہی چھوڑ دو ورنہ تم خود ملامت زدہ اور درماندہ بن کر رہ جاؤ گے۔‘‘(بنی اسرائیل: 17/29) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خرچ کرتے وقت نہ تو بخل سے کام لیا جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی خرچ کیا جائے کہ اپنی ضرورت کے لیے بھی کچھ نہ رہے بلکہ میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے۔ خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہ ہے: ’’اور جو لوگ خرچ کرتے ہیں وہ تو اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔‘‘(الفرقان: 67) مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے کاموں میں حد سے زیادہ خرچ کرنا معیوب ہے، اسی طرح ضرورت کے وقت پیسہ خرچ نہ کرنا بلکہ اسے جوڑ کر رکھنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ اعتدال کی پالیسی کو اختیار کرنا چاہیے۔ (2) اسراف اور بخل کے درمیان صفت کو اقتصاد یا قصد کہتے ہیں۔ اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاد یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت پر اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضروری ہو، نہ کم ہو نہ زیادہ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان اور پیش کردہ احادیث کا یہی مقصد ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زبرقان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے، ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دیکھو جو نیک کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو (میانہ روی اختیار کرو) اور خوش رہو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ! فرمایا اور میں بھی نہیں۔ سوا اس کے کہ اللہ اپنی مغفرت و رحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانک لے۔ مدینی نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ موسیٰ بن عقبہ نے یہ حدیث ابو سلمہ سے ابو النصر کے واسطے سے سنی ہے۔ ابوسلمہ نے عائشہ ؓ سے۔ اور عفان بن مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ ؓ سے سنا اور انہوں نے عائشہ ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا درستی کے ساتھ عمل کرو اور خوش رہو۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ ''سداداً سدیداً'' ہردو کے معنیٰ صدق کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یعنی سچائی کو ہر حال میں اختیار کرو تم اعمال خیر کروگے تم کو جنت کی بلکہ دنیا میں بھی کامیابی کی بشارت ہے۔ قرآن کی آیت ﴿قُولُوا قولا سَدِیدا﴾(الأعراف:43) کی طرف اشارہ ہے۔ عفان بن مسلم حضرت اما م بخاری کے استاد ہیں اس سند کو لا کر امام بخاری نے علی بن عبد اللہ مدینی کا گمان رفع کیا کہ اگلی روایت منقطع ہے کیونکہ اس میں موسیٰ کے سماع کی ابو سلمہ سے صراحت ہے حدیث میں سدودا کا لفظ آیا تھا سدیداسدادا کا بھی وہی مادہ ہے اس مناسبت سے امام بخاری نے اس کی تفسیر یہاں بیان کر دی۔ قرآن شریف میں جو ہے ﴿تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾(الاعراف: 43) اس کے معارض نہیں ہے کیونکہ عمل صالح بھی منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے لیکن اصلی سبب رحمت اور عنایت الٰہی ہے بعض نے کہا آیت میں ترقی درجات مراد ہے نہ محض دخول جنت اور ترقی اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہوگی اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں اعمال صالحہ کرنے والے کو بہشت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے۔ معاذاللہ منه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Do good deeds properly, sincerely and moderately, and receive good news because one's good deeds will not make him enter Paradise." They asked, "Even you, O Allah's Apostle?" He said, "Even I, unless and until Allah bestows His pardon and Mercy on me."