Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Hope with fear)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن کی کوئی آیت مجھ پر اتنی سخت نہیں گزری جتنی ( سورۃ مائدہ ) کی یہ آیت ہے کہ اے پیغمبر کے اقارب والو! تمہارا طریق ( مذہب ) کوئی چیز نہیں ہے جب تک توراۃ اور انجیل اور ان کتابوں پر جوتم پر اتری ہیں پوراعمل نہ کرو۔اس آیت کی سختی کی وجہ سے ظاہر ہے کیونکہ اللہ نے اس میں یہ فرمایاکہ جب تک کتاب الٰہی پرپورا عمل نہ ہوں ا س وقت تک دین وایمان کوئی چیز نہیں ہے۔
6469.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے رحمت کو جس دن پیدا کیا تو اس کے سو حصے کیے۔ پھر اس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے صرف ایک حصہ اپنی مخلوق کے لیے دنیا میں بھیجا لہذا اگر کافر کو اللہ کی ساری رحمت کا پتہ چل جائے تو وہ کبھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن کو اللہ کے ہاں ہر قسم کے عذاب کا علم ہو جائے تو وہ دوذخ سے کبھی بھی بے خوف نہ ہو۔“
تشریح:
(1) مومن کتنے بھی نیک اعمال کرتا ہو لیکن اسے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے۔ شاید میری نیکیاں بارگاہِ الٰہی میں قبول نہ ہوئی ہوں اور شاید میرا خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔ یہی امید اور خوف ہے جس کے درمیان ایمان ہے۔ امید بھی کامل اور خوف بھی پورا پورا۔ قرآن کریم میں اللہ کے بندوں کی صفت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’’وہ اپنے اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں۔‘‘(بني إسرائیل: 57/17) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت فرمایا: ’’وہ جو دیتے ہیں جو بھی دیں لیکن ان کے دلوں میں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔‘‘(المؤمنون: 23/60) عرض کی: جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں انہیں کس بات کا ڈر لگا رہتا ہے؟ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا چوری کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدیق کی بیٹی! یہ بات نہیں بلکہ وہ لوگ روزہ رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ دیتے ہیں، اس کے باوجود وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید ان کا عمل قبول نہ ہو۔ یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف لپکتے اور آگے نکل جانے والے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3175) (2) بہرحال مسلسل گناہ کرتے جانا، پھر نجات کی امید رکھنا بدبختی کی علامت ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حالت صحت میں دل پر خوف غالب رکھے اور مرتے وقت اس کے رحم و کرم کی امید رکھے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6240
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6469
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6469
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6469
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس آیت کے گراں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سخت حکم ہے کہ جب تک کتاب الٰہی پر پورا عمل نہ ہو اس وقت تک دین و ایمان کا کوئی اعتبار نہیں۔ دراصل امید اور خوف کی درمیانی کیفیت کا نام ایمان ہے۔ صرف امید ہو تو وہ انسان کو تکبر تک پہنچا دیتی ہے اور صرف خوف ہو تو ناامیدی تک لے جاتا ہے۔ خوف اور امید پرندے کے دونوں پروں کی طرح ہیں، جب تک دونوں برابر رہیں تو وہ بدستور اڑتا رہتا ہے اور جب کسی ایک پر میں نقص پڑ جائے تو اڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ اگر دونوں پر جاتے رہیں تو پرندے کی موت قریب آ جاتی ہے۔ بہرحال مومن کو اللہ تعالیٰ کے غصے کا ڈر اور اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہیے، اسی طرح اس کا ایمان محفوظ رہتا ہے۔
اور سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن کی کوئی آیت مجھ پر اتنی سخت نہیں گزری جتنی ( سورۃ مائدہ ) کی یہ آیت ہے کہ اے پیغمبر کے اقارب والو! تمہارا طریق ( مذہب ) کوئی چیز نہیں ہے جب تک توراۃ اور انجیل اور ان کتابوں پر جوتم پر اتری ہیں پوراعمل نہ کرو۔اس آیت کی سختی کی وجہ سے ظاہر ہے کیونکہ اللہ نے اس میں یہ فرمایاکہ جب تک کتاب الٰہی پرپورا عمل نہ ہوں ا س وقت تک دین وایمان کوئی چیز نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالٰی نے رحمت کو جس دن پیدا کیا تو اس کے سو حصے کیے۔ پھر اس نے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے صرف ایک حصہ اپنی مخلوق کے لیے دنیا میں بھیجا لہذا اگر کافر کو اللہ کی ساری رحمت کا پتہ چل جائے تو وہ کبھی جنت سے مایوس نہ ہو اور اگر مومن کو اللہ کے ہاں ہر قسم کے عذاب کا علم ہو جائے تو وہ دوذخ سے کبھی بھی بے خوف نہ ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مومن کتنے بھی نیک اعمال کرتا ہو لیکن اسے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے۔ شاید میری نیکیاں بارگاہِ الٰہی میں قبول نہ ہوئی ہوں اور شاید میرا خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔ یہی امید اور خوف ہے جس کے درمیان ایمان ہے۔ امید بھی کامل اور خوف بھی پورا پورا۔ قرآن کریم میں اللہ کے بندوں کی صفت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’’وہ اپنے اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں۔‘‘(بني إسرائیل: 57/17) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل آیت کے متعلق دریافت فرمایا: ’’وہ جو دیتے ہیں جو بھی دیں لیکن ان کے دلوں میں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں۔‘‘(المؤمنون: 23/60) عرض کی: جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں انہیں کس بات کا ڈر لگا رہتا ہے؟ کیا وہ شراب پیتے ہیں یا چوری کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدیق کی بیٹی! یہ بات نہیں بلکہ وہ لوگ روزہ رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ دیتے ہیں، اس کے باوجود وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ شاید ان کا عمل قبول نہ ہو۔ یہی لوگ ہیں جو نیکیوں کی طرف لپکتے اور آگے نکل جانے والے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3175) (2) بہرحال مسلسل گناہ کرتے جانا، پھر نجات کی امید رکھنا بدبختی کی علامت ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ حالت صحت میں دل پر خوف غالب رکھے اور مرتے وقت اس کے رحم و کرم کی امید رکھے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
سفیان نے کہا: قرآن کی کوئی آیت مجد پر اتنی سخت نہیں گزری جس قدر درج زیل آیت ہے: ”تم کسی چیز پر نہیں ہو یہاں تک کہ تورات وانجیل کو اس اور اس (دین) کو قائم کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔“
فائدہ: اس آیت کے گراں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سخت حکم ہے کہ جب تک کتاب الہٰی پر پورا عمل نہ ہو اس وقت تک دین وایمان کو کوئی اعتبار نہیں ہے۔ دراصل امید و بیم کی درمیانی کیفیت کا نام ایمان ہے۔ صرف امید ہو تو وہ انسان کو تکبر تک پہنچا دیتی ہے اور صرف خوف ہوتو ناامیدی تک لے جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے عمروبن ابی عمرو نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی مقبری نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن بنایا تو اس کے سو حصے کئے اور اپنے پاس ان میں سے نناوے رکھے۔ اس کے بعد تمام مخلوق کے لئے صرف ایک حصہ رحمت کا بھیجا۔ پس اگر کا فروں کو وہ تمام رحم معلوم ہو جائے جو اللہ کے پاس ہے تو وہ جنت سے نا امید نہ ہو اور اگر مومن کو وہ تمام عذاب معلوم ہو جائیں جو اللہ کے پاس ہیں تو دوزخ سے کبھی بے خوف نہ ہو۔
حدیث حاشیہ:
یہی امید اور خوف ہے جس کے درمیان ایمان ہے امید بھی کامل اور خوف بھی پوراپورا۔ اللهم ارزقنا آمین۔ مومن کتنے بھی نیک اعمال کرتا ہو لیکن ہروقت اس کو ڈررہتا ہے شاید میری نیکیاں بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہوئی ہوں اور شاید میرا خاتمہ برا ہو جائے۔ ابوعثمان نے کہا گناہ کرتے جانا اور پھر نجات کی امید رکھنا بد بختی کی نشانی ہے علماء نے کہا ہے کہ حالت صحت میں اپنے دل پر خوف غالب رکھے اور مرتے وقت اس کے رحم وکرم کی امید زیادہ رکھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, Verily Allah created Mercy. The day He created it, He made it into one hundred parts. He withheld with Him ninety-nine parts, and sent its one part to all His creatures. Had the non-believer known of all the Mercy which is in the Hands of Allah, he would not lose hope of entering Paradise, and had the believer known of all the punishment which is present with Allah, he would not consider himself safe from the Hell-Fire."