باب: اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا ان سے صبر کئے رہنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Refraining from doing things Allah has made illegal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
بلاشبہ صبر کر نے والوں کوان کا ثواب بے حساب دیا جائے گا ۔اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ ہم نے سب سے عمدہ زندگی صبر ہی میں پائی ہے۔تشریح : صبر کہتے ہیں بری بات سے نفس کو روکنا اور زبان سے کوئی شکوہ شکایت کا کلمہ نہ نکالنا۔ اللہ کے رحم وکرم کا منتظر رہنا۔ حضرت ذوالنون مصری نے کہا ہے صبر کیاہے بری باتوں سے دورہنا ، بلا کے وقت اطمینان رکھنا ، کتنی ہی محتاجگی آئے مگر بے پرواہ رہنا۔ ابن عطاء نے کہا صبر کیا ہے بلا ئے الٰہی پر ادب کے ساتھ سکوت کرنا۔ یا اللہ !میں نے بھی76ء میں بحالت سفر ایک پیش آمدہ مصیبت عظمیٰ پر ایسا ہی صبر کیا ہے پس مجھ کو اجر بے حساب عطافرمائیو۔ آمین ( راز
6471.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺ اس قدر پڑھتے کہ آپ کے دونوں قدموں پر ورم آ جاتا۔ آپ سے کہا جاتا تو آپ فرماتے: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“
تشریح:
(1) ایک روایت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں تو پھر آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس کے بعد آپ نے وہ جواب دیا جو اس حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4836) (2) اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا واجب ہے اور واجب کا ترک حرام ہے۔ جب انسان، واجب کی ادائیگی میں اپنے نفس کو مصروف رکھے گا تو لازمی طور پر وہ حرام چیزوں سے خود کو باز رکھے گا۔ بہرحال شکر کے لیے صبر لازمی ہے کیونکہ اس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کار بند اور اس کی نافرمانی سے باز رہتا ہے۔ (فتح الباري: 369/11) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6242
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6471
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6471
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6471
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
صبر کے معنی ہیں: بری بات سے نفس کو روکنا اور زبان سے کوئی شکوہ و شکایت نہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کا منتظر رہنا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ صبر کے بعد اگر عَن آ جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں: گناہوں سے خود کو روکنا، اور اگر علی آ جائے تو یہ طاعات میں استعمال ہوتا ہے جیسے اس نے خود کو نماز کے لیے روکا، آیت کریمہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر میں یہ دونوں معنی مراد ہیں۔ (فتح الباری: 11/367)
بلاشبہ صبر کر نے والوں کوان کا ثواب بے حساب دیا جائے گا ۔اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ ہم نے سب سے عمدہ زندگی صبر ہی میں پائی ہے۔تشریح : صبر کہتے ہیں بری بات سے نفس کو روکنا اور زبان سے کوئی شکوہ شکایت کا کلمہ نہ نکالنا۔ اللہ کے رحم وکرم کا منتظر رہنا۔ حضرت ذوالنون مصری نے کہا ہے صبر کیاہے بری باتوں سے دورہنا ، بلا کے وقت اطمینان رکھنا ، کتنی ہی محتاجگی آئے مگر بے پرواہ رہنا۔ ابن عطاء نے کہا صبر کیا ہے بلا ئے الٰہی پر ادب کے ساتھ سکوت کرنا۔ یا اللہ !میں نے بھی76ء میں بحالت سفر ایک پیش آمدہ مصیبت عظمیٰ پر ایسا ہی صبر کیا ہے پس مجھ کو اجر بے حساب عطافرمائیو۔ آمین ( راز
حدیث ترجمہ:
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺ اس قدر پڑھتے کہ آپ کے دونوں قدموں پر ورم آ جاتا۔ آپ سے کہا جاتا تو آپ فرماتے: ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے ہیں تو پھر آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ اس کے بعد آپ نے وہ جواب دیا جو اس حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4836) (2) اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا واجب ہے اور واجب کا ترک حرام ہے۔ جب انسان، واجب کی ادائیگی میں اپنے نفس کو مصروف رکھے گا تو لازمی طور پر وہ حرام چیزوں سے خود کو باز رکھے گا۔ بہرحال شکر کے لیے صبر لازمی ہے کیونکہ اس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کار بند اور اس کی نافرمانی سے باز رہتا ہے۔ (فتح الباري: 369/11) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”بلاشبہ صبر کرنے والوں کو بے حد وحساب اجر دیا جائے گا۔“حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ”ہم نے بہترین زندگی صبر میں پائی ہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر بن کدام نے بیان کیا، کہا ہم سے زیادبن علاقہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ اتنی نماز پڑھتے کہ آپ کے قدموں میں ورم آ جاتا یا کہا کہ آپ کے قدم پھول جاتے۔ آنحضرت ﷺ سے عرض کی جاتی کہ آپ تو بخشے ہوئے ہیں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughira bin Shu'ba (RA) : The Prophet (ﷺ) used to pray so much that his feet used to become edematous or swollen, and when he was asked as to why he prays so much, he would say, "Shall I not be a thankful slave (to Allah)?"