باب: فجر کی نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت کے بارے میں
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Superiority of the Fajr (early morning) prayer in congregation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
648.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’نماز باجماعت تنہا شخص کی نماز سے پچیس درجے میں زیادہ ہے۔ اور رات دن کے فرشتے نماز فجر میں جمع ہوتے ہیں۔‘‘ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’فجر میں قرآن کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں نماز فجر باجماعت ادا کرنے کی وجہ فضیلت کو بیان کیا ہے کہ اس میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔ اسی فضیلت کے پیش نطر حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تمام رات نوافل پڑھنے سے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ نماز فجر کی جماعت میں شرکت کروں۔ (2) یہ فضیلت نماز عصر کوبھی حاصل ہے، جیسا کہ احادیث میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ممکن ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر میں فرشتوں کا حاضر ہونا دو اضافی درجے ہوں جو پچیس درجات کے علاوہ ہوں، کیونکہ اس حدیث میں پچیس درجات کے بیان کے بعد مستقل طور پر اجتماع ملائکہ کا ذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے بعد حدیث ابن عمر ؓ کو بیان کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ نماز باجماعت انفرادی نماز کے مقابلے میں ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہیں۔ (شرح ابن بطال:278/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
642
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
648
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
648
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
648
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
پہلے عنوان میں نماز باجماعت کی فضیلت بیان کی گئی تھی،اس عنوان میں نماز فجر کی فضیلت کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔چونکہ دن رات کے فرشتے اس نماز میں جمع ہوتے ہیں اس وجہ سے اس کی فضیلت دیگر نمازوں کے مقابلے میں زیادہ ہے،اس لیے اس کے متعلق مستقل عنوان قائم کیا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’نماز باجماعت تنہا شخص کی نماز سے پچیس درجے میں زیادہ ہے۔ اور رات دن کے فرشتے نماز فجر میں جمع ہوتے ہیں۔‘‘ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’فجر میں قرآن کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں نماز فجر باجماعت ادا کرنے کی وجہ فضیلت کو بیان کیا ہے کہ اس میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔ اسی فضیلت کے پیش نطر حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تمام رات نوافل پڑھنے سے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ نماز فجر کی جماعت میں شرکت کروں۔ (2) یہ فضیلت نماز عصر کوبھی حاصل ہے، جیسا کہ احادیث میں صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے۔ممکن ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر میں فرشتوں کا حاضر ہونا دو اضافی درجے ہوں جو پچیس درجات کے علاوہ ہوں، کیونکہ اس حدیث میں پچیس درجات کے بیان کے بعد مستقل طور پر اجتماع ملائکہ کا ذکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے بعد حدیث ابن عمر ؓ کو بیان کیا ہے جس میں وضاحت ہے کہ نماز باجماعت انفرادی نماز کے مقابلے میں ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہیں۔ (شرح ابن بطال:278/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، ، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے، انھوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا کہ جماعت سے نماز اکیلے پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ اور رات دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ اگر تم پڑھنا چاہو تو (سورہ بنی اسرائیل) کی یہ آیت پڑھو {إِنَّ قُرْآنَ الفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا}یعنی فجر میں قرآن پاک کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama bin 'Abdur Rahman (RA): Abu Hurairah (RA) said, "I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'The reward of a prayer in congregation is twenty five times greater than that of a prayer offered by a person alone. The angels of the night and the angels of the day gather at the time of Fajr prayer.' “ Abu Hurairah (RA) then added, "Recite the Holy Book if you wish, for "Indeed, the recitation of the Qur'an in the early dawn (Fajr prayer) is ever witnessed." (17.18).