Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: To be afraid of Allah 'Azza wa Jall)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6481.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سابقہ امتوں میں سے ایک کا ذکر کیا۔ اللہ تعالٰی نے اسے مال و اولاد عطا فرمائی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: میں تمہارا کیسا باپ ہوں؟ انہوں نے کہا: آپ ہمارے اچھے باپ ہیں۔ اس نے کہا: تہمارے اس باپ نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی جمع نہیں کی ہے اگر اسے اللہ کے حضور پیش کیا گیا تو وہ اسے ضرور عذاب دے گا۔ اب میرا خیال رکھو، جب میں مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا یہاں تک کہ میں کوئلہ بن جاؤں تو مجھے پیس کر کسی (تیز ہوا آندھی) والے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس کا پختہ وعدہ لیا۔ قسم ہے میرے رب کی! اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”ہوجا تو وہ آدمی کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندے! تجھے اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نےکہا: تیرے خوف اور تیرے ڈرنے (آمادہ کیا) اللہ تعالٰی نے اسکا بدل یوں دیا کہ اس پر رحم فرمایا (اور اسے معاف کر دیا)۔“ (راوی حدیث معتمر کے والد تیمی سلیمان تیمی کہتے ہیں:) میں نے یہ حدیث ابو عثمان سے بیان کی تو انہوں نے کہا: میں نے سلمان سے سنا، اس نے ان الفاظ کا اضافہ کیا: مجھے دریا میں بہا دینا۔ یاس جیسی کوئی بات کہی۔ معاذ نے کہا:ہمیں شعبہ سے قتادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے عقبہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص کفن چور تھا۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3452) اس نے یہ فعل اس لیے کیا کہ اگر اسے اصل حالت میں دفن کر دیا گیا تو قیامت کے دن اٹھتے وقت لوگ اسے پہچان لیں گے، لہذا جب وہ جل کر راکھ ہو گیا، پھر اسے پانی میں بہا دیا گیا یا ہوا میں اڑا دیا گیا تو لوگ اسے پہچان نہیں سکیں گے لیکن وہ بے چارہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی صفات سے بھی ناواقف تھا اور اس کے اعمال بھی اچھے نہ تھے لیکن مرنے سے پہلے اس پر خوف الٰہی اس قدر طاری ہوا کہ اس نے اپنے بیٹوں کو ایک جاہلانہ وصیت کر دی۔ وہ یہ سمجھا کہ میری راکھ کے اس طرح خشکی اور تری میں منتشر ہونے کے بعد میرے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ لیکن جاہلانہ غلطی کا منشا اور سبب چونکہ خوف الٰہی اور اس کے عذاب کا ڈر تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے خوف الٰہی کی قدروقیمت کو ثابت کیا ہے کہ خوف الٰہی کی وجہ سے اس جاہل کو بھی معاف کر دیا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6252
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6481
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6481
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6481
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سابقہ امتوں میں سے ایک کا ذکر کیا۔ اللہ تعالٰی نے اسے مال و اولاد عطا فرمائی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: میں تمہارا کیسا باپ ہوں؟ انہوں نے کہا: آپ ہمارے اچھے باپ ہیں۔ اس نے کہا: تہمارے اس باپ نے اللہ کے ہاں کوئی نیکی جمع نہیں کی ہے اگر اسے اللہ کے حضور پیش کیا گیا تو وہ اسے ضرور عذاب دے گا۔ اب میرا خیال رکھو، جب میں مر جاؤں تو میری لاش کو جلا دینا یہاں تک کہ میں کوئلہ بن جاؤں تو مجھے پیس کر کسی (تیز ہوا آندھی) والے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس کا پختہ وعدہ لیا۔ قسم ہے میرے رب کی! اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”ہوجا تو وہ آدمی کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے بندے! تجھے اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نےکہا: تیرے خوف اور تیرے ڈرنے (آمادہ کیا) اللہ تعالٰی نے اسکا بدل یوں دیا کہ اس پر رحم فرمایا (اور اسے معاف کر دیا)۔“ (راوی حدیث معتمر کے والد تیمی سلیمان تیمی کہتے ہیں:) میں نے یہ حدیث ابو عثمان سے بیان کی تو انہوں نے کہا: میں نے سلمان سے سنا، اس نے ان الفاظ کا اضافہ کیا: مجھے دریا میں بہا دینا۔ یاس جیسی کوئی بات کہی۔ معاذ نے کہا:ہمیں شعبہ سے قتادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے عقبہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص کفن چور تھا۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3452) اس نے یہ فعل اس لیے کیا کہ اگر اسے اصل حالت میں دفن کر دیا گیا تو قیامت کے دن اٹھتے وقت لوگ اسے پہچان لیں گے، لہذا جب وہ جل کر راکھ ہو گیا، پھر اسے پانی میں بہا دیا گیا یا ہوا میں اڑا دیا گیا تو لوگ اسے پہچان نہیں سکیں گے لیکن وہ بے چارہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی صفات سے بھی ناواقف تھا اور اس کے اعمال بھی اچھے نہ تھے لیکن مرنے سے پہلے اس پر خوف الٰہی اس قدر طاری ہوا کہ اس نے اپنے بیٹوں کو ایک جاہلانہ وصیت کر دی۔ وہ یہ سمجھا کہ میری راکھ کے اس طرح خشکی اور تری میں منتشر ہونے کے بعد میرے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ لیکن جاہلانہ غلطی کا منشا اور سبب چونکہ خوف الٰہی اور اس کے عذاب کا ڈر تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے خوف الٰہی کی قدروقیمت کو ثابت کیا ہے کہ خوف الٰہی کی وجہ سے اس جاہل کو بھی معاف کر دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا میں نے اپنے والد سے سنا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن عبد الغافر نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے پچھلی امتوں کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مال واولاد عطاء فرمائی تھی ۔ فرمایا کہ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے لڑکو ں سے پوچھا، باپ کی حیثیت سے میں نے کیسا اپنے آپ کو ثابت کیا؟ لڑکوں نے کہا کہ بہترین باپ۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اس نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں جمع کی ہے۔ قتادہ نے (لم یتبر) کی تفسیر (لم یدخر) (نہیں جمع کی) سے کی ہے۔ اور اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اسے اللہ کے حضور میں پیش کیا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے عذاب دے گا (اس نے اپنے لڑکوں سے کہا کہ) دیکھو، جب میں مرجاؤں تو میری لاش کو جلا دینا اور جب میں کوئلہ ہو جاؤں تو مجھے پیس دینا اور کسی تیز ہوا کے دن مجھے اس میں اڑا دینا۔ اس نے اپنے لڑکوں سے اس پر وعدہ لیا چنانچہ لڑکوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعا لیٰ نے فرمایا کہ ہو جا۔ چنانچہ وہ ایک مرد کی شکل میں کھڑا نظر آیا۔ پھر فرمایا میرے بندے! یہ تو نے کیا کرایا ہے اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے کہا کہ تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ یہ دیا کہ اس پر رحم فرمایا۔ میں نے یہ حدیث عثمان سے بیان کیا کی تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سلمان سے سنا۔ البتہ انہوں نے یہ لفظ بیان کیے کہ ”مجھے دریا میں بہا دینا“ یا جیسا کہ انہوں نے بیان کیا اور معاذ نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے عقبہ سے سنا، انہوں نے ابو سعید ؓ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Said : The Prophet (ﷺ) mentioned a man from the previous generation or from the people preceding your age whom Allah had given both wealth and children. The Prophet (ﷺ) said, "When the time of his death approached, he asked his children, 'What type of father have I been to you?' They replied: You have been a good father. He said, 'But he (i.e. your father) has not stored any good deeds with Allah (for the Hereafter): if he should face Allah, Allah will punish him. So listen, (O my children), when I die, burn my body till I become mere coal and then grind it into powder, and when there is a stormy wind, throw me (my ashes) in it.' So he took a firm promise from his children (to follow his instructions). And by Allah they (his sons) did accordingly(fulfilled their promise.) Then Allah said, "Be"' and behold! That man was standing there! Allah then said. "O my slave! What made you do what you did?" That man said, "Fear of You." So Allah forgave him.