باب: عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے اور خاتمہ سے ڈرتے رہنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The deeds done depend upon the last actions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6493.
حضرت سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مشرکین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا، یہ آدمی لوگوں میں صاحب ثروت تھا، آپ نےفرمایا: اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دیکھ لے۔ اسکے بعد ایک شخص اس کی نگرانی کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ شخص مسلسل برسر پیکار رہاحتی کہ وہ زخمی ہوگیا۔ زخموں کی تاب نہ لاکر وہ جلدی مرنا چاہتا تھا تو اپنی تلوار کی دھار اپنے سینےپر رکھ دی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا تو وہ اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی لوگوں کے سامنے اہل جہنم کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اعمال کا دارمدار تو ان کے خاتمے پر ہے۔
تشریح:
(1) بندے کو اپنے نیک اعمال پر مغرور نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے برے خاتمے سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔ حسن خاتمہ کی چند ایک علامات حسب ذیل ہیں: ٭ وفات کے وقت کلمۂ شہادت پڑھنا۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3116) ٭ وفات کے وقت پیشانی پر پسینہ نمودار ہونا۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 982) ٭ جمعہ کی رات یا دن میں فوت ہونا۔ (مسند احمد: 196/2) ٭ میدان قتال و جہاد میں شہادت کی موت حاصل کرنا۔ (مسند أحمد: 131/4) ٭ طاعون کی بیماری سے موت آنا۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2830) ٭ ٹی بی کی بیماری میں وفات پانا۔ (مجمع الزوائد: 317/4) ٭ اپنے مال و عزت کا دفاع کرتے ہوئے مر جانا۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4772) ٭ سرحدی پہرے کی حالت میں موت آنا۔ (صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 4938 (1913)) ٭ کسی بھی نیک عمل پر موت آنا۔ (مسند أحمد: 391/5) ٭ لوگوں کا میت کی تعریف کرنا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2200 (949)) ٭ پیٹ کی بیماری سے، غرق ہو کر، ملبے کے نیچے دب کر، فالج کے سبب اور عورت کو حالت نفاس میں موت آنا بھی حسن خاتمہ کی علامتیں ہیں کیونکہ متعدد احادیث میں ان سب کو شہید قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4940 (1914)، مسند أحمد: 391/5) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن خاتمہ سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔ (2) اللہ تعالیٰ نے اچھے یا برے انجام کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھا ہے کیونکہ اگر کسی کو پتا ہوتا کہ وہ نجات یافتہ ہے تو وہ خود پسندی کا شکار ہو کر سستی کا مظاہرہ کرتا اور اگر کسی کو معلوم ہوتا کہ وہ ہلاک ہونے والا ہے تو وہ مزید سرکشی میں آگے بڑھتا، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ انسان امید اور خوف کے درمیان رہے جو ایک ایمانی کیفیت ہے۔ (فتح الباري: 401/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6264
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6493
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6493
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6493
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
مرتے وقت جو کام انسان سے سرزد ہوا، اسی کا اعتبار ہو گا۔ اگر کسی شخص کی ساری زندگی عبادت اور تقویٰ شعاری میں گزری لیکن آخری دم کسی گناہ میں گرفتار ہوا تو سابقہ نیک اعمال کچھ کام نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ برے خاتمے اور برے انجام سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو مشرکین کے کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا، یہ آدمی لوگوں میں صاحب ثروت تھا، آپ نےفرمایا: اگر کوئی کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دیکھ لے۔ اسکے بعد ایک شخص اس کی نگرانی کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگ گیا۔ وہ شخص مسلسل برسر پیکار رہاحتی کہ وہ زخمی ہوگیا۔ زخموں کی تاب نہ لاکر وہ جلدی مرنا چاہتا تھا تو اپنی تلوار کی دھار اپنے سینےپر رکھ دی پھر اس پر اپنا بوجھ ڈالا تو وہ اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی لوگوں کے سامنے اہل جہنم کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اعمال کا دارمدار تو ان کے خاتمے پر ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بندے کو اپنے نیک اعمال پر مغرور نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے برے خاتمے سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔ حسن خاتمہ کی چند ایک علامات حسب ذیل ہیں: ٭ وفات کے وقت کلمۂ شہادت پڑھنا۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3116) ٭ وفات کے وقت پیشانی پر پسینہ نمودار ہونا۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 982) ٭ جمعہ کی رات یا دن میں فوت ہونا۔ (مسند احمد: 196/2) ٭ میدان قتال و جہاد میں شہادت کی موت حاصل کرنا۔ (مسند أحمد: 131/4) ٭ طاعون کی بیماری سے موت آنا۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2830) ٭ ٹی بی کی بیماری میں وفات پانا۔ (مجمع الزوائد: 317/4) ٭ اپنے مال و عزت کا دفاع کرتے ہوئے مر جانا۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4772) ٭ سرحدی پہرے کی حالت میں موت آنا۔ (صحیح مسلم، الإمارۃ، حدیث: 4938 (1913)) ٭ کسی بھی نیک عمل پر موت آنا۔ (مسند أحمد: 391/5) ٭ لوگوں کا میت کی تعریف کرنا۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2200 (949)) ٭ پیٹ کی بیماری سے، غرق ہو کر، ملبے کے نیچے دب کر، فالج کے سبب اور عورت کو حالت نفاس میں موت آنا بھی حسن خاتمہ کی علامتیں ہیں کیونکہ متعدد احادیث میں ان سب کو شہید قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4940 (1914)، مسند أحمد: 391/5) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن خاتمہ سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔ (2) اللہ تعالیٰ نے اچھے یا برے انجام کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رکھا ہے کیونکہ اگر کسی کو پتا ہوتا کہ وہ نجات یافتہ ہے تو وہ خود پسندی کا شکار ہو کر سستی کا مظاہرہ کرتا اور اگر کسی کو معلوم ہوتا کہ وہ ہلاک ہونے والا ہے تو وہ مزید سرکشی میں آگے بڑھتا، اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ انسان امید اور خوف کے درمیان رہے جو ایک ایمانی کیفیت ہے۔ (فتح الباري: 401/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا، ان سے حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین سے جنگ میں مصروف تھا، یہ شخص مسلمانوں کے صاحب مال ودولت لوگوں میں سے تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ کسی جہنمی کو دیکھے وہ اس شخص کو دیکھے۔ اس پر ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے وہ شخص برابر لڑتا رہا اور آخر زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے چاہا کہ جلدی مر جائے۔ پس اپنی تلوار ہی کی دھار اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی (اس طرح وہ خودکشی کر کے مرگئے) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، بندہ لوگوں کی نظرمیں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظرمیں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی آخر مرتے وقت جس نے جیسا کام کیا اسی کا اعتبار ہوگا اگر ساری عمر عبادت اور تقویٰ میں گزاری لیکن مرتے وقت گناہ میں گرفتار ہوا تو پچھلے نیک اعمال کچھ فائدہ نہ دیں گے اللہ سوء خاتمہ سے بچائے۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو گووہ فاسق فاجر ہو یا صالح اور پرہیز گار ہم قطعی طور پر دوزخی یا جنتی نہیں کہہ سکتے۔ معلوم نہیں کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوتا ہے اور اللہ کے ہاں اس کا نام کن لوگوں میں لکھا ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مسلمان کو اپنے اعمال صالحہ پر مغرور نہ ہونا چاہئے اور سوء خاتمہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے۔ بزرگوں نے تجر بہ کیا ہے کہ اہل حدیث اور اہل بیت نبوی سے محبت رکھنے والوں کا خاتمہ اکثر بہتر ہوتا ہے۔ یا اللہ !مجھ نا چیز کو بھی ہمیشہ اہل حدیث اور آل رسول سے محبت رہی ہے اور جس کو سادات سے پایادل سے اس کا احترام کیا ہے مجھ ناچیز حقیر گنہگار کو بھی خاتمہ بالخیر نصیب کہ برقول ایمان کنم خاتمہ۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'd bin Sahl As-Sa'idi (RA) : The Prophet (ﷺ) looked at a man fighting against the pagans and he was one of the most competent persons fighting on behalf of the Muslims. The Prophet (ﷺ) said, "Let him who wants to look at a man from the dwellers of the (Hell) Fire, look at this (man)." Another man followed him and kept on following him till he (the fighter) was injured and, seeking to die quickly, he placed the blade tip of his sword between his breasts and leaned over it till it passed through his shoulders (i.e., committed suicide)." The Prophet (ﷺ) added, "A person may do deeds that seem to the people as the deeds of the people of Paradise while in fact, he is from the dwellers of the (Hell) Fire: and similarly a person may do deeds that seem to the people as the deeds of the people of the (Hell) Fire while in fact, he is from the dwellers of Paradise. Verily, the (results of) deeds done, depend upon the last actions."